دوستو،آج چونکہ اتوار ہے اس لئے شاید آپ کو ہمارے کالم کا عنوان بھی آسانی سے سمجھ نہیں آرہا ہوگا، چھٹی کے دن عقل اور ذہانت کی بھی چھٹی ہوتی ہے کیوں کہ بے چاری پورے چھ دن مسلسل کام جو کرتی ہے بقول ہمارے پیارے دوست جس طرح انسانی جسم کو ہفتے میں ایک روز آرام کی ضرورت پیش آجاتی ہے اسی طرح عقل و ذہانت بھی آخر’’انسان‘‘ ہیں انہیں بھی ہفتے میں ایک روز آرام کی شدید ’’حاجت‘‘ پیش آسکتی ہے۔۔ جہاں انسانی عقل ، انسانی شعور اور انسانی ذہانت کام نہ کررہی ہوتو اس سے آگے کسی کا دیا ہوا مشورہ کام آجاتا ہے، اب چونکہ مشورہ ’’واحد‘‘ ہے اس لئے جب ایک سے زیادہ مشورے دیئے جائیں تو وہ ہماری نظر میں ’’ مشور ۔ یات ‘‘ بن جاتا ہے۔۔ اس لئے ان مشوروں کو چھٹی کا دن سمجھتے ہوئے بغیر کسی سوچ بچار کے پڑھنے کی ضرورت ہوگی، دماغ پر زیادہ زور دینے کی کوشش کی تو ’’ گوڈے،گٹوں‘‘ میں درد شقیقہ بھی ہوسکتا ہے اور دردشقیقہ ’’ یارفیقا‘‘ انتہائی مہلک اور جان لیوا مرض ہوتا ہے۔۔ چلیں باتیں بہت ہوگئیں اب کچھ اوٹ پٹانگ گفتگو کا وقت ہواچاہتا ہے۔۔
میری گیس کا پریشر نہیں آرہا،پڑوسن نے جب صبح صبح فون کرکے ہمارے پیارے دوست سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیاتو انہوں نے پڑوسن کو ایک چمچ نہارمنہ ’’پھکی‘‘ کھانے کا مشورہ دے ڈالا۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے۔۔میں کیوں کہوں کہ میری عمر بھی آپ کو لگ جائے، ہوسکتا ہے میرا آخری دن ہو اور آپ بھی میرے نال ہی ’’ٹنگے ‘‘جاؤ۔۔لڑکی بالیوں کا حسن دیکھ کر وہ دل جلے انداز میں مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔سوہنا ہونا کونسا’’ سوکھا ‘‘کام ہے، اتنے فشل اور سکن پالشیں کرنی پڑتی ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست کے استاد محترم جناب باباجی فرماندے نے۔۔جو لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، لوگ ان کے ہر کام۔ سے کام رکھنے لگتے ہیں۔۔باباجی کاہی ایک اور قول ہے۔۔مرد کے لئے سب سے بڑا موضوع عورت ہے، اور عورت کے لئے سب سے بڑا موضوع دوسری عورت۔۔باباجی جب اپنے ایک عزیز دوست کی بیوی کی میت پر اظہار افسو س کے لئے گئے تو دیکھا کہ ان کے دوست ’’ہشاش،بشاش‘‘ اور خوش و خرم نظرآرہے تھے، آنسو نام کی کوئی شئے ان کے دوست کی آنکھوں میں نظر نہیں آرہی تھی، تو بابا جی نے چپکے سے اپنے عزیزدوست کے کان میں مشورہ دیا۔۔یاریہی تصور کرلے کہ وہ واپس آرہی ہے۔۔
آپ ہماری اس اوٹ پٹانگ گفتگو کو پڑھ کر نکتہ چینی ضرور کریں گے، کیوں کہ نکتہ چینی وہ واحد چینی ہے جس میں نمک مرچ تو ہوتا ہے مگر چینی بالکل نہیں ہوتی۔۔کہتے ہیں۔۔پاکستان میں تین چنے بہت مشہور ہوئے۔۔عالم چنا۔حمیرا چنا۔اور لوہے کا چنا۔۔ہماری فضول اور اوٹ پٹانگ گفتگو کو کچھ لوگ بڑے مزے سے پڑھتے ہیں، خیرخواہوں کی بڑی تعداد کافی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے جب کہ بدخواہوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ ’’ کھیڈنا ہے نہ کھیڈن دینا ہے‘‘ اس لئے ہم بدخواہوں کو خواہ مخواہ ہی اہمیت نہیں دیتے۔۔ہمارے ایک کرم فرما نے گزشتہ دنوں ای میل پہ ہمیں یہ ’’نوید‘‘ دی کہ ۔۔وہ دن دور نہیں جب ڈپریشن اور ٹینشن کے مریضوں کو ان کے معالج خوش رہنے کے لئے آپ کے کالم پڑھنے کا مشورہ دیں گے۔۔اپنے محترم کرم فرما کی بات کو ہم نے قطعی ’’سنجیدہ‘‘ نہیں لیا، کیوں کہ اگر ہم سنجیدہ ہوجائیں توپھر ایسی فضول گفتگو پڑھنے سے آپ محروم رہ جائیں ۔۔ ویسے بھی خیالی پلاؤ کی تو بندہ دیگوں کی دیگیں بنالے مسئلہ یہ ہے کہ خیالی پلاؤ سے ایک بھی پلیٹ حقیقی پلاؤ نہیں نکلتا۔۔ہم ایسی ’’مسکہ بن‘‘ باتوں سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوتے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ ۔۔فی زمانہ کسی کو ’’ متاثر ‘‘ کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اْس ایک بڑی رقم اْدھار لے لی جائے ۔۔
اب ہم جو مشورہ آپ کو دینے لگے ہیں اسے خواتین اپنے ’’ پلو‘‘ سے باندھ لیں، مردحضرات اسے اپنے موبائل میں ’’ محفوظ‘‘ کرلیں، بچے اسے اپنے کمپیوٹرز میں اور لڑکیاں اسے اپنے میک اپ باکس میں ہمیشہ کے لئے رکھ لیں۔۔مشورہ یہ ہے کہ ۔۔ کچھ لوگ دیکھنے میں عجیب عجیب لگتے ہیں ،مگر کچھ دیر بات کرنے سے ہی پتہ لگتا ہے ’’چول ‘‘بھی ہیں۔۔جس طرح چپلی کباب میں، چپل نہیں ہوتی، آلو بخارے میں آلو نہیں ہوتا۔۔روح افزا میں روح نہیں ہوتی۔۔فیئراینڈ لولی میں فیئرنس اور لولی پن نہیں ہوتا۔۔لوہے کے چنوں میں بھلا کب لوہا ہوتا ہے؟ وٹہ سٹہ میں کب وٹے ہوتے ہیں؟؟میٹھا سوڈے میں تو کچھ بھی میٹھا نہیں ہوتا۔۔ تاشقند میں کب تاش ہوتے ہیں؟؟گلاب جامن میں گلاب نہیں ہوتا۔۔ افغانی پلاؤ میں افغانی نہیں ہوتا۔۔۔مٹی کے تیل میں مٹی نہیں ہوتی۔۔جمال گھوٹے میں جمال نہیں ہوتا۔۔کشمیری چائے میں کشمیر نہیں ہوتا۔۔ماسٹر بریانی میں ماسٹر نہیں ہوتا۔۔ اسی طرح عمران یات میں عمران نہیں ہوتا۔۔اب یہ عمران آپ ’’وزیراعظم ‘‘والا سمجھ لیں یا’’احمق اعظم‘‘ والا۔۔ بلاشبہ ہم خود کو احمق اعظم کہلانے میں کسی بھی قسم کی شرم اور جھجک محسوس نہیں کرتے۔۔ کیونکہ عینک لگانے والے کی آدھی زندگی توشیشے صاف کرنے میں گذر جاتی ہے۔۔
لفظوں کے جادوگرجناب حسن نثار کے چند جملے پچھلے دنوں پڑھ کر مزے آئے، آپ بھی مزے لیجئے۔۔ ’’یہ کیسے ممکن کہ جہاں کرنسی ڈی ویلیو ہو وہاں انسان کی ویلیو ہو، نئے پاکستان والوں سے گزارش مہنگائی ابھی وارم اپ موڈ میں یا یوں کہہ لیں گہری نیند سے بیدار ہو کر پہلی انگڑائی لے چکی، اصل مہنگائی کو تو ابھی آنا ہے، لہٰذا دعائیں اور بددعائیں سنبھال کے رکھیں، یہاں سیاست سے بڑا منافع بخش کوئی کاروبار نہیں اور ہمارے تمہارے خون کا سوپ ہمیشہ سے جمہوریت کیلئے اکسیر رہا ہے‘‘۔۔۔ہمارے پیارے دوست کا فون آیاکہہ رہے تھے، آج شکور ٹیلرز کے ہاں جانا ہوا، شکور صاحب انتہائی پریشان تھے، استفسار پر کہنے لگے، بیگم ناراض ہے اور میکے چلی گئی ہے،کہہ رہی تھی علیمہ نے ایک مشین سے اتنی جائیداد بنا لی اور آپ نے دکان پر 5مشینیں رکھی ہوئی ہیں اورہم ابھی تک نیوجرسی توکیانیوکراچی میں بھی نیا گھر نہیں بنا سکے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ بلکہ آج آخری بات نہیں آپ سے ایک مشورہ لینا ہے۔۔ماں باپ کو پیار سے دیکھنے کا ثواب اگر ایک حج کے برابر ہے تو بیوی کو پیار سے دیکھنے کا ثواب ایک عمرہ تو ہو گا ہی کم از کم۔۔کیا مشورہ ہے آپ کا؟؟