تحریر: سید بدرسعید۔۔
پاکستانی صحافت کی میں سٹریم میں آنا ا اتنا مشکل نہیں ھے ۔ اب اس کے بھی چور راستے تلاش کر لیے گئے ھیں ۔ آپ فیکٹ کو بھول جائیں ۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کر دیں اور ہر حکومت کے خلاف دل کھول کر لکھیں ۔ اپنی تحریر میں بد تمیزی کا عنصر شامل کر لیں ۔ اپنے کالم میں ڈھیروں نام شامل کریں اور ان تمام احباب کو ان کے نام پر نشان لگا لگا کر کالم کی فوٹو کاپی بھیجیں اور اگلے کالم میں یہ بھی ظاہر کرتے جائیں کہ وقت کا بادشاہ آپ کے در پر آیا تو آپ نے اسے ٹھکرا دیا۔
ایڈیٹوریل سٹاف کو ہر ہفتے کھانا کھلاتے رھیں تاکہ کالم جاری رھ سکے ۔ اچھے سے ڈیزائنر سے دھانسو قسم کے وزیٹنگ کارڈ چھپوائیں تقریبات میں شرکت کریں ۔ اھم شخصیات کے دفاتر میں چلے جائیں۔ انہیں اپنا کارڈ پیش کریں اور کسی تقریب کا دعوت نامہ تھما آئیں ۔
اگر آپ کے پاس پیسہ بھی ھے تو پھر تیسرے درجے کے چینلز کے کرنٹ افیئر کے پروڈیوسرز کو تحفے بھیجیں اور ان کے پروگرامز میں بطور تجزیہ نگار شامل ھو جائیں ۔ اپنے تجزیوں میں آواز اونچی رکھیں اور بدتمیزی کی انتہا کر دیں ۔ دوسرے مہمان جو بات کریں انہیں بات مکمل نہ کرنے دیں اور اس کے الٹ بات کریں ۔پروگرام کے بعد تمام مہمانوں کو کھانے کی دعوت دیں اور گلے مل کر ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں ۔ کچھ عرصہ بعد آپ کا بدتمیز تجزیہ اور تحائف آپ کو درجہ اول کے چینلز پر بھی لے آئیں گے ۔
اخبارات کے “پیڈ” صفحات کی قیمت ادا کریں اور وہاں بطور تجزیہ نگار اپنی تصویر اور رائے شامل کروائیں ۔ پیسے دے کر اپنے انٹرویو کروائیں ۔ اعلی سطحی پروگرامز میں اہم شخصیات کے ساتھ والی سیٹ خرید لیں اور پھر وہ تصاویر بھی ہر جگہ پھیلائیں ۔ ہفتے بعد درجن بھر اخبارات کے رپورٹز کو چائے پانی کے ساتھ پریس ریلیز بھیجیں ۔ چھوٹے اخبارات اور چینلز کو کور کرنے کے بعد اپنی بھاری بھرکم پروفائل بنائیں اور ساری کٹنگز اس میں لگاتے جائیں ۔ بڑے اخبارات کے پیڈ صفحات اور پیڈ پروگرامز میں حصہ ڈالتے رھیں ۔ جلد ہی آپ ھماری صحافت کے نامور ستارے بن جائیں گے ۔
یہ راستہ ھمارے عوام نے بنایا ھے ۔ میں نے اس راستے پر چلنے والوں کو ایک آدھ سال میں ہی کاروباری شخص سے سینئر تجزیہ نگار تک کا سفر طے کرتے دیکھا ھے ۔
ھمارے ہاں بعض ایسے سینئر تجزیہ نگار بھی ھیں جنہوں نے چند سال قبل ہی مجھے ایک ماہانامہ کے لیے اپنا انٹرویو کرنے کے لیے مختلف افراد سے کہلوایا اور ان سے ملنے کے بعد میں نے اپنے ادارے کے ایڈیٹر سے کہہ دیا تھا کہ ایسے افراد کے انٹرویو میرے نام سے نہ لگائیں اور جو افراد ان کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا رھے تھے یہ تکلیف بھی انہی کو دیں ۔ ایڈیٹر نے بھی ان کے انٹرویو نہ چھاپے ۔ اس کے بعد ان کے جہاں جہاں پیڈ انٹرویو شائع ھوئے وہ سفر میرے سامنے طے ھوا لیکن آج وہ ھمارے ملک کے سینئر تجزیہ نگار ھیں ۔
آپ پاکستانی میڈیا پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیں آپ کو اکثر ایسے اینکر ، سینئر تجزیہ نگار اور سینئر کالم نگار نظر آئیں گے جو اسی راستے پر سفر کر رھے ھیں اور محض دو تین سال قبل تک میڈیا پر ان کا نام و نشان تک نہ تھا۔ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ھمارے ناظرین و قارئین کی اکثریت نیوز چینلز معلومات کے لیے نہیں بلکہ مرچ مسالحہ کے لیے دیکھتی ھے ۔ یہ مرچ مسالحہ پروفیشنل صحافی کے پاس کم ہی ھوتا ھے البتہ بعض نان پروفیشنل صحافی اسی مسالحہ کے چکر میں پڑے ھیں ۔صحافتی اقدار ، خبر کی سچائی ، دستاویز اور اندر کی خبر کی بنیاد پر تجزیہ اور پریس لاء کا خیال رکھنے والوں کو موجودہ پاکستانی صحافت میں ناکام سمجھا جاتا ھے ۔ یہ ھمارا مجموعی المیہ ھے جسے عوام کے علاوہ کوئی نہیں بدل سکتا(سید بدر سعید)