likhne walo ke masail | Hammad Raza

مشہور مقدمات اور ہمارا طریقِ انصاف

تحریر۔حمادرضا

عتیق الرحمان ایک منجھے ہوۓ صحافی ہیں چند سال پہلے ان کی ایک کتاب منظرِ عام پر آچکی ہے جس کا عنوان تھا پاکستان کی اہم شخصیات کا قتل اپنے نام کی طرح کتاب بھی اپنے اندر دلچسپی کا پورا سامان لیے ہوۓ ہے کتاب پڑھ کر آپ پے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کس طرح پاکستان کی اہم اور مشہور شخصیات کو قتل کر دیا گیا اور نا صرف قتل کر دیا گیا بلکہ بہت سی شخصیات کے قاتلوں کا سرے سے ہی پتہ نہیں لگا کہ انھیں زمین کھا گئ یا آسمان نگل گیا اور یہی ہمارے ملک کا بھی سب سے سنگین مسئلہ ہے کہ اوّل تو قاتل پکڑے ہی نہیں جاتے اور اگر پکڑ بھی لیے جائیں تو زیادہ تر اپنے جرم کے مطابق طے کردہ سزاؤں سے بچ جاتے ہیں آپ زیادہ دور نا جائیں ایک دو عشروں کے چند مشہور مقدمات کا جائزہ لے لیں آپ کو اپنے ملک میں ملنے والے انصاف کا بہتر اندازہ ہو سکے گا پاکستان کے مشہور فلمسٹار سلطان راہی کو آج سے چوبیس برس قبل قتل کر دیا گیا لیکن آج بھی قاتلوں کا کچھ پتہ نہیں ہاں البتہ پولیس کی طرف سے یہ دعوی قتل کے چند ماہ بعد ہی کر دیا گیا کہ وہ سلطان راہی کے قاتل کو اپنے انجام تک پہنچا چکی ہے جس کا نام ساجو کانا بتایا گیا جو کہ مشہور چور اور ڈکیت تھا یہ ماوراۓ عدالت ہلاکت تھی جس کا کوئ ٹرائل کسی کورٹ میں نہیں چلا یہ بات کسی طور بھی ثابت نا ہو پائ کے وہ ہی اصل قاتل تھا یا کوئی اور کیس فائل ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئ یہاں حکیم محمد سعید کا ذکر کرنا بھی نا گزیر ہو گا انھیں بھی آج سے بائیس سال پہلے گولیوں سے بھون دیا گیا مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو عدالت کی جانب سے سزاۓ موت سنائ گئ لیکن حیران کن طور پر سال دو ہزار ایک میں تمام ملزمان کو با عزت بری کر دیا گیا اگر بری کیے گیے افراد قاتل نہیں تھے تو پھر قاتل کون تھا یہ سوال اس کیس کو لے کر اپنی پوری پراسراریت کے ساتھ آج بھی قائم دائم ہے اسی طرح سپاہ صحابہ کے سربراہ مولانا اعظم طارق جن کو آج سے سترہ سال پہلے بیتالیس گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ان کا کیس آج تک پولیس کے لیے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ قاتل کون تھے اب تک اس قتل کے مقدمہ میں کسی کو بھی سزا نہیں سنائ جا سکی مشہورِ زمانہ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل میں ملوث عمر شیخ کو عدالت نے سال دو ہزار میں مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزا سنائ لیکن اس پر عمل درآمد نا ہو سکا وہ دہشت گرد اور قاتل آج بھی زندہ سلامت ہے بلکہ اسی سال کے اوائل میں اس سے ڈینیل پرل کے قتل کا الزام بھی ہٹا دیا گیا جج کے مطابق عدالت میں صرف یہ ثابت ہو سکا کہ اس نے صرف امریکی صحافی کو اغوا کیا تھا مشہور قوال امجد صابری کا قتل کون بھول سکتا ہے دو ہزار سولہ میں ان کے قتل کے بعد پولیس نے ایک کالعدم جماعت کے دو کارندوں امجد بوبی اور عاصم کیپری کو گرفتار کیا جنہوں نے اپنے اقبالی بیان میں نا صرف امجد صابری کا قتل قبول کیا بلکہ فورسز پر متعدد حملوں کی بھی ذمہ واری قبول کی دو ہزار اٹھارہ میں عدالت نے انھیں بھی سزاۓ موت کا حکم سنایا لیکن آج تک عملدراآمد نہیں ہوا یہ چند مشہورِ زمانہ مقدمات ہمارے ملک کے طریقِ انصاف کی نمائندگی کرنے کے لیے کافی ہیں کے کس طرح ملزمان انصاف کے کٹہرے سے صاف بچ نکلتے ہیں آپ اگر مزید گہرائ میں جانا چاہیں تو بے شک محترمہ بینظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کو بھی اس لسٹ میں شامل کر سکتے ہیں مقدمات کے ٹرائل میں تیزی لانے کے لیے مختلف عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا لیکن نتائج جوں کے توں رہے یہ وہ تمام کیسسز ہیں جو انٹرنیشنل میڈیا اٹینشن لینے میں کامیاب ہوۓ لیکن نتیجہ صفر نکلا حالیہ قتل کیے گیے ڈاکٹر مولانا عادل خان کے قاتلوں کا پولیس ابھی تک کوئ سراغ نہیں لگا پائ اگر لگا بھی لیا تو انجام پچھلے کیسوں جیسا ہی ہو سکتا ہے تھانہ کلچر اور عدالتی نظام میں اصلاحات کی گنجائش یقینی طور پر موجود ہے اور اس کے بغیر قصور واروں کو ان کے انجام تک پہنچانا بہت مشکل ہے حکومت کوچاہیے کے عدالتی نظام کی بہتری کے لیے اپنے  تمام تر وسائل کو بروۓ کار لاۓ پولیس اصلاحات کی باتیں بھی صرف بیانات کی حد تک محدود رہتی ہیں عملاً کچھ ہوتا نظر نہیں آتا محکمہ پولیس میں بھی پروفیشنل ازم کی شدید قلت نظر آتی ہے دنیا بھر میں جب بھی کسی تحقیقی ادارے کو چار سو کوئ سراغ نظر نہیں آتا تو تب  کہیں جا کر ملزم پر انعامی رقم کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن ادھر دیکھنے میں یہ آیا کہ موٹر وے زیادتی کیس ہو یا ڈاکٹر مولانا عادل خان کا قتل فوراً ہی ملزموں کی گرفتاری کے لیے ایک بڑی انعامی رقم کی پیش کش کر دی گئ کیا اب ایک بڑے بجٹ کی مد میں پلنے والے ادارے سے کارکردگی لینے کے لیے اسے انعام کا لالچ دینا پڑے گا سچ تو یہ ہے کہ  انصاف میں تا خیر ہی مجرموں کے حوصلے بلند کرتی ہے اور ایک مہذب قوم کی بنیاد ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم ہوتی ہے اگر فی الوقت بھی کورٹ کچہری کے اس گلے سڑے نظام میں اصلاحات کر کے تازہ خون نا دوڑایا گیا تو ملزم اور قاتل ایسے ہی قانون کی گرفت سے آزاد رہیں گے اور معاشرے کو اپنے جرائم سے تعفن زدہ کرتے رہیں گے۔(حمادرضا)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں