masajid aqamatgaah nahi ibadatgaah

مساجداقامت گاہ نہیں عبادت گاہ۔۔

تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی سپریم کورٹ رجسٹری میں جھیل پارک سے مدینہ مسجد کو گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ مساجد عبادتگاه نہیں بلکہ اقامت گاہیں ہیں. چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم نے مسجد کمیٹی کے ممبر سے پوچھا آپ کے پاس کوئی قانونی دستاویزات ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کچھ بھی نہیں ہے. لہٰذا ایک ہفتہ کے دوران مساجد کو منہدم کرکے جھیل پارک کو بحال کیا جائے. جمعتہ المبارک کے نماز جمع ادا کرنے کے بعد ہزاروں نمازیوں اور علاقہ مکینوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور سپریم کورٹ کے جسٹس جسٹس کو فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی ہے. طارق روڈ کراچی میں مدینہ مسجد کا قیام 1980ع آج سے 40 سال قبل ہوا تھا. مدینہ مسجد کی زمین پی ایس سی ایچ ایس  کی ملکیت تھی جو پہلے  کے بی سی کہلاتا تھا  جن سے 1994 میں باقاعدہ تعمیر جدید کی اجازت لی گئی تھی. سندھ حکومت کے محکمےایس بی سی اے سے مسجد کی تعمیر کا باقاعدہ  نقشہ پاس کروایا گیا تھا۔ مدینہ مسجد ٹرسٹ کا 1997 میں بنوری ٹاؤن ٹرسٹ سے باقاعدہ الحاق کیا گیا تھا اور مدینہ مسجد ٹرسٹ باقاعدہ 1991 میں سندھ حکومت سے رجسٹر بھی کراوایا گیا جس کی ہر سال تجدید کی جاتی رہی ہے. مسجد کوئی غیر قانونی نہیں ہے. اہل علاقہ نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کی جائے، مسجد کو شہید ہونے سے روکا جائے. ان کو پارک کی ضرورت نہیں مسجد چاہیے. چیف جسٹس صاحب حیات ریزیڈنسی، بنی گالہ اور بحریہ ٹاؤن کے کیس کے تحت یہاں بھی اسی طرح کا فیصلہ کیا جائے۔۔.

پاکستان میں جہاں انکروچمینٹ کے نام پر لاکھوں لوگوں کے گھر، دکان، مسمار کئے گئے ہیں، وہیں پر مساجد و مدارس کو بھی شہید کیا گیا ہے. دوسری طرف وزیراعظم، حکومتی وزرہ، بااثر شخصیات کو رلیف دیا گیا ہے. ان کی جگہوں، حویلیوں، ملکیتوں کو ریگولرائیز کیا گیا ہے جو کہ ایک ہی ملک میں دوہرا معیار ہے. سب سے پہلے تو سرکاری زمین پلاٹوں پر قبضہ کرنے کے وقت حکومت، ریاست، عدالتیں کہاں ہوتی ہیں جو ایکشن نہی لیتی. جو این او سی اجازت نامہ دیتے ہیں، لیز کرکے دیتے ہیں، تعمیرات شروع ہوتی ہے. بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے لیکر تمام محکموں کی طرف سے اجابت مل جاتی ہے. جب کیسز سامنے آتے ہیں تو جج صاحبان فوری طور پر حکم صادر کرتے ہیں کہ عمارتیں، مساجد، مدارس، دکانیں گرائی جائیں. سکھر میں ایک ہی رات میں پولیس، محکمہ ایریگیشن، ڈسٹرکٹ انتظامیہ روینیو کی مدد سے ہیوی مشینری کے ذریعے 18 مساجد کو شہید کیا گیا. ان 18 مساجد میں ایک مسجد جسے امروٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے سکھر بیراج کے سامنے کھیر تھر کئنال پر قائم تھی جو پاکستان سے بھی قبل قائم ہوئی تھی. بئراج کے کئنال کی کھدائی کے دوران انگریز افسران نے مسجد کو شہید نہیں کیا گیا تھا مگر موجودہ حکومت میں سے بھی منہدم کردیا گیا. معاملہ عدالت میں ہوا، جے یو آئی سندھ کے رہنما راشد محمود سومرو جماعت کے ہمراہ وکلا سمیت پیش ہوئے، عدالت نے دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ زبانی سنایا مگر دو روز بعد تحریری فیصلہ میں ردوبدل کیا گیا. سندھ ہائی کورٹ سکھر بئنچ نے سندھ بھر میں ایریگیشن کی زمین پر انکروچمینٹ ہٹانے کا فیصلہ دیا. انتظامیہ نے لاکھوں غریبوں کے گھر مسمار کئے مگر بااثر شخصیات کو رلیف دیا گیا. سیاسی لوگوں کے بال کو بھی ٹیڑھا نہی ہونے دیا. اس سے بھی قبل عدالت نے سکھر میں پارک کے نام پر اسلامک سینٹر سمیت 90 سے زائد دکانیں مسمار کردی، مگر آج تک وہ جگہ کھنڈر بنی ہوئی ہے. پارک تو بحال نہ ہو سکا مگر آج وہ اسلامک سنٹر لنڈا بازار جوا منشیات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے. سپریم کورٹ نے کراچی میں انکروچمینٹ ہٹانے کیلئے نسلہ ٹاور جو نج رہائشی تھا اسی گرانے کا حکم دیا. لاگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی چلی گئی. جس کے بعد طارق روڈ پر قائم کثیر المنزلہ مدینہ مسجد کو ایک ہفتے کے اندر گرانے کا حکم دیا گیا ہے. جج صاحب نے کہا کہ قبضہ کی زمین پر مسجد بنانا جائز ہے؟ کیا قبضہ کی جگہ پر بنی مسجد میں نماز ہو جائے گی؟ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جہاں قبضہ کرنا ہو وہیں پر مسجد بنالو یا قبر بنالو…! یہ ریمارکس اکثر عدالتیں دیتی آرہی ہیں اور اکثر جج صاحبان مثال کے طور پر ریفرنس دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجد نبوی کی تعمیر کرتے وقت مالکان کو رقم ادا کی گئی تھی. یقیناً اس میں کوئی شک نہیں ہے. مگر پاکستان ایک اسلامی ملک ہے. پاکستان کا قیام کلمہ طیبہ کے نام پر ہوا تھا. ایک اسلامی ریاست میں مساجد کی تعمیر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے نہ کہ عوام کی۔۔

جج صاحبان بتائیں گے کہ پاکستان میں آج تک 74 سال گزرنے کے باوجود کتنی مساجد حکومت نے بنائی ہیں؟ کس شہر میں کون کون سی مسجد سرکار نے بنائی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ سرکاری زمین ہے، مانتے ہیں کہ سرکاری زمین ہے، مگر اسلامی ملک میں سرکار کس کی ملکیت ہوتی ہے؟ کیا ریاست کا کام نہیں کہ وہ جہاں سرکاری ہسپتال، اسکول، کالج، یونیورسٹی، کورٹ، جیل، آفیسز، تھانہ پارک کھیلوں کے میدان بنائے وہیں پر مساجد بھی تعمیر کرے.؟! طارق روڈ کی مدینہ مسجد کسی مذہبی سیاسی جماعت نے نہیں بنائی ہے بلکہ یہ علاقہ مکینوں کی جانب سے بنائی گئی تھی. دکانداروں کو نماز پڑھنے کیلئے جگہ نہیں تھی، جھیل پارک کے کونے پر جہاں مسجد بنی ہوئی ہے وہاں پر پہلے کچرہ پڑا رہتا تھا. باقاعدہ قانونی طور پر تمام ضروریات کو پورا کرنے کے بعد مسجد تعمیر ہوئی ہے. مدینہ مسجد کو گرانے کے عدالتی فیصلے پر اہل پاکستان، مسلمانوں کے دلوں میں بیچنے پیدا ہوئی ہے، قومی اسمبلی میں مولانا اسعد محمود نے اس فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے اور ساتھ میں بنی گالا کے ریگولرائز کرنے کا حوالہ بھی دیا ہے، وہیں پر جے یو آئی سندھ کے رہنما مولانا راشد محمود سومرو اور اس کی جماعت نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے تمام سیاسی مذہبی جماعتوں شہریوں سے ملاقاتیں بھی شروع کردیں ہیں. اور سخت مزاحمت کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے. جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمن نے مدینہ مسجد کے معاملے پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مقدمہ تو چلائیں کہ مسجد غضب زمین پر ہے زمین کے تمام اسناد اور این اوسی موجود ہے. جج صاحب بھی جاتے جاتے مسجدوں کو گرانے کا فیصلہ دے رہے ہین تاکہ مغرب کیلئے قابل قبول ہوسکیں اور کہتے ہیں ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ دیا یے. ہم ججز کا احترام پچھلے جج صاحب نے مغرب کی نظر میں قابل قبول بننے کیلئے گستاخی کی مرتکب کو آزاد کرلیا ، اب انہیں مغرب میں پاسپورٹ، گھر اور آسائشیں مل رہی ہیں ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہا کہ مساجد کو شہید کرنے سے گریز کیا جائے. اور فیصلہ پر نظرثانی کی جائے. سپریم کورٹ کے جسٹس جسٹس کو چاہیے کہ ایسے فیصلے دینے سے پہلے معاملے کا جائزہ لیا جائے. کیس چلایا جائے. اگر مہندم کرنے کے فیصلے آئیں گے تو دنیا میں جگ ہنسائی ہوگی. کہا جائے گا کہ بابری مسجد پر احتجاج کرنے والے پاکستان میں خود مساجد کو شہید کر رہے ہیں. امید ہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس جسٹس فیصلہ پر نظر ثانی کرکے کوئی بیچ والا راستہ نکالیں گے۔۔(علی انس گھانگھرو)۔

(مصنف کی تحریر اور اس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسیوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔علی عمران جونیئر)۔۔

sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں