تحریر: سید بدرسعید۔۔
شہر کی صحافت پر اپنی خبر سے راج کرنے کے بعد اس نے سبزی کی دکان کھولے لی۔۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس لیڈر بہت زیادہ لیکن دوست بہت کم ہیں ۔ ہمارے یہاں صحافیوں کی کئی تنظیمیں بن چکی ہیں ۔کئی یونینز ہیں ،پریس کلبس ہیں ،نیوز ڈیسک والوں کی تنظیمیں ہیں ، رپورٹرز کی الگ تنظیم ہے ، پھر اس میں بھی ہر بیٹ کے رپورٹرز کی الگ الگ تنظیمیں، الیکٹرانک رپورٹرز اور پروڈیوسرز کی الگ الگ ایسوسی ایشنز ہیں ، اسمبلی کے رپورٹرز کے الگ الیکشن ہوتے ہیں ،نائٹ رپورٹرز الگ گروہ بنائے بیٹھے ہیں ،کالم نگاروں کی اپنی درجن بھر تنظیمیں ہیں ، اس کے بعد ینگ میڈیا اور ینگ رپورٹرز الگ شہر بسائے بیٹھے ہیں ۔
سچ کہیں تو ہر دوسرا صحافی اب لیڈر ہے ،ہر تنظیم میں کم از کم دو دو دھڑے تو موجود ہیں ، کئی جگہ اس سے زیادہ گروپس بھی ہیں ۔ یہ سب صحافیوں کے حقوق کے علمبردار ہیں ،ان سب کا نعرہ یہی ہے کہ یہ کمیونٹی کی مدد کرتے ہیں اور یقینا ایسا کرتے ہوں گے ۔
اس کے باوجودہ بھی سچ ہے کہ آج میں دفتر سے گھر جاتے وقت ایک مقام پر ٹھہر سا گیا ،وہ منظر ابھی تک میری آنکھوں میں جما ہوا ہے ۔ اس فیلڈ کی بے حسی سے خاموشی اور بے خبری تک کی مجسم تصویر میری نگایوں سے نہیں ہٹتی ۔
یہ ایک معروف شاہراہ تھی ۔ اسی شہر کی رپورٹنگ میں راج کرنے والا ایک بڑا صحافی وہاں سبزیاں بیچ رہا تھا ۔ وہ شخص جس کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ،جس کی ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ پریس کوریج کے دوران میزبان کی چائے تک نہیں پیتا تھا کہ کہیں خبر متاثر نہ ہو ۔ جو رپورٹنگ سے چینل کی سکرین پر بطور اینالسٹ گیا ۔ جس کی تنخواہ اس وقت دو لاکھ سے زائد تھی جب عام رپورٹر بمشکل 30 ہزار تنخواہ لیتا تھا لیکن اس کے باوجود اس نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ اب اسے اس فیلڈ سے جدا ہونا پڑے گا ۔ اس کے لیے صحافت میں جگہ تنگ پڑنے لگی تھی ۔شہر کی صحافت کاروباری افراد کے ہاتھ میں جا رہی تھی ،کئی اداروں میں ایسے افراد مالکان کے عہدے پرآ گئے تھےجنہیں خبر نہیں چاہیے تھی بلکہ رپورٹر کی جگہ اپنے مفادات کا محافظ چاہیے تھا ۔
ان حالات میں ایسا،صحافی جس نے کبھی کسی کو بلیک میل نہیں کیا ،رشوت نہیں لی اور دونمبری نہیں کی وہ خاموشی سے اس فیلڈ سے الگ ہو گیا ۔
اس شہر کی سکرین پر نظر آنے والا وہ شخص آج اسی شہر کی ایک معروف شاہراہ پر گھر کے کچن کی ٹوکریوں میں بمشکل دو سے تین ہزار کی سبزی رکھے سبزی کی دکان کھولے بیٹھا ہے اور شاید شہر کے سبھی باخبر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ ہمیں اب دوستوں کے حال سے واقفیت کے لیے بھی اس لمحے کا انتظار رہتا ہے جب دوست خود آ کر بتائے کہ وہ کن حالات میں ہے اور ہمارے پاس اس بے خبری کا سب سے بڑا جواز یہی ہوتا ہے کہ اس نے ہمیں آ کر کب بتایا تھا جو اب شکوہ کر رہا ہے . سچ کہوں تو آج واقعی دل دکھا ہے ۔ ان کی بے خبری پر جو بہت زیادہ باخبر ہوتے ہیں اور ان کی دوستی پر جو تعلقات کو سیاست کے ترازو میں تولتے ہیں (سید بدر سعید)