تحریر: سید بدرسعید۔۔۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں معروف گلوکار راحت فتح علی خان اپنے ملازم کو پیٹ رہے ہیں اور “بوتل” کا پوچھ رہے ہیں ۔ یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد راحت فتح علی خان کی وضاحتی ویڈیو بھی جاری ہوتی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ جس طرح شاگردوں سے پیار کرتے ہیں ویسے ہی غلطی پر ان کی سرزنش بھی کی جاتی ہے ۔مار کھانے والا شاگرد بتاتا ہے کہ بوتل میں دم کیا ہوا پانی تھا
اس پر اب کئی آرا سامنے آ رہی ہیں ۔ کچھ کے نزدیک راحت فتح علی خان کا اصل چہرہ ایکسپوز ہو گیا ہے ، کچھ کے نزدیک یہ استاد شاگرد کا آپس کا معاملہ ہے
میں اسے کسی اور انداز میں دیکھ رہا ہوں ۔ موبائل فون ،کیمرے اور سوشل میڈیا نے ہم سے ہماری اصل زندگی چھین لی ہے ۔ ہم سب اپنے چہرے پر دوہرا نقاب ڈالے ہوئے ہیں ۔سوشل میڈیا اور ہماری حقیقی زندگی میں زمین آسمان کا فرق آ گیا ہے ۔ ہم جو نہیں ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں وہ ہم ہیں نہیں
راحت فتح علی خان نے جو کیا وہ پبلک پلیس پر نہیں کیا ۔ اس کے جس شاگرد نے “بوتل ” غائب کی اس نے بھی راحت کے خلاف کوئی کمپلینٹ نہیں کی ۔ راحت چونکہ مشہور بندہ ہے اس لیے وہ فورا ظالم بن گیا اور بوتل چور مظلوم بن گیا ۔ مارکیٹ میں “دم والی ” اچھی برانڈڈ بوتل کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ ایک لاکھ روپے کی چوری پر راحت نے اسے چند تھپڑ جڑ دیے لیکن نہ ملازمت سے نکالا ، نہ مقدمہ درج کروایا اور ممکن ہے یہ روٹین ہو اور دو گھنٹے بعد راحت اسے کہہ رہا ہو جا فیر نویں بوتل لے کے آ ۔۔۔۔
ہم سوشل میڈیا پر واقف سے بدتمیزی کر جاتے ہیں وہ حقیقتا سامنے ہو تو بدتمیزی پر مبنی بات نہیں کر سکتے ۔ اسی طرح ہم حقیقی زندگی میں دوسروں سے جیسی چھیڑ چھاڑ اور مذاق کر جاتے ہیں وہ سوشل میڈیا پر نہیں کر پاتے ۔ میرے ایک استاد کہا کرتے تھے بردکھاوا سے بڑا فراڈ کوئی نہیں ہے ۔ ہم رشتہ دیکھنے کے لیے لڑکا یا لڑکی ڈرائنگ روم میں دیکھتے ہیں اور پھر ہاں یا نہ کرتے ہیں ۔ ڈرائنگ روم میں شکل کے سوا کیا پتا لگتا ہے ۔کون جانتا ہے وہی لڑکی یا لڑکا سوتے وقت کتنے زور سے خراٹے لیتا یا لیتی ہو گی ؟ اس کا مزاج کیا ہے ، اس کے خواب کیا ہیں ۔ ایک کپ چائے ہر کون یہ سب جان پاتا ہے ۔ یہ بس آنا کی تسکین ہوتی ہے کہ ہم نے رشتہ فائنل یا ریجیکٹ کیا ہے ۔
بہرحال راحت فتح علی خان کی ویڈیو نے ایک بار پھر احساس دلایا کہ سوشل میڈیا اور موبائل کیمرہ ہم سے ہماری پرائیویسی چھین چکا ہے ۔ ہم زندگی کے عام اوقات میں بھی ریلیکس نہیں رہ سکتے ۔ ہمیں الرٹ رہنا ہے اپنے مرنے تک (سید بدر سعید )