بلاگ: سید عارف مصطفی
دو تین روز قبل ایک خبر سوشل میڈیا اور مختلف ذرائع ابلاغ پہ چلی اور اس پہ تبصروں کا طومار سا بندھ گیا اور وہ یہ تھی کہ نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی پہ کی جانے والی لائیو کؤریج پہ اسماء شیرازی اور طلعت حسین کے چینلوں نے انکے پروگرام روک دیئے۔۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔۔ رسوائی کی بات اس لیئے کہ آخر اس پابندی کا ڈھنڈورا کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی اس امر کا تجزیہ کیوں نہیں کرتا کہ یہ چینل اس عمل پہ کیوں مجبور ہوئے اور اسی خبر سے جڑا میرا ایک سوال یہ ہے کہ میڈیا پہ یہ سب الزم تراشی اور طعنے بازی کیسی ، کیا ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے؟؟؟ ۔۔۔۔ میں نے یہ سوال اس لیئے اٹھایا ہے کہ کافی عرصے سے ہر خاص و عام اس بحث میں الجھا نظر آتا ہے کہ میڈیا کی آزادی اک حقیقت ہے یا سراب ۔۔ میری دانست میں اس امر پہ ہر عاقل و بالغ کا نکتہ نظر کسی قدر مختلف تو ہوسکتا ہے لیکن یکسر الٹا ہرگز نہیں، کیونکہ جلتے سورج کی مانند روشن حقائق کی موجودگی میں خود فریبی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔۔۔
ایسا یقیناؐ ہوا ہے لیکن جس طرح واقعاتی تناظر میں یہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی عین اسی طرح یہ بات بھی ناقابل تردید ہے کہ حقیقت محض یہیں تک محدود نہیں اسکے ماسوا بھی ہے ۔۔ اور اسے سمجھے اور جانے بغیر چینلوں کی زیادتی کا ڈھول پیٹنا بھی مناسب رویہ ہرگز نہیں ۔۔ اس خبر سے صحیح نتیجہ نکالنے اور درست تاثر قائم کرنے کے لیئے صحیح اور مناسب بات یہ ہے کہ ہم ان خبروں کا معروضی تجزیہ کریں اور برسر زمین حقائق کا جائزہ لینا یادرکھیں ۔۔ اس تجزیئے کے سلسلے میں سب سے اہم نکتہ تو یہی ہے کہ میڈیا اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے اور اسکی بنیادیں خلاء میں نہیں ہیں اور شاید ہی کوئی ذرا سا بھی باخبر شخص اس عملی حقیقت سے واقف نہ ہو کہ میڈیا کی یہ تھوڑی بہت آزادی بھاسکے اپنے بل پہ ہے ورنہ تو ریاست اورپیمرا سمیت اسکی فعال قؤتوں کی جانب سے یہ آزادی درحقیقت ہمیشہ سے دکھاوے کی رہی ہے اور جب بھی کسی بھی چھوٹے یا بڑے طاقتور نے کسی خبر یا پروگرام کو اپنے مفاد یا مزاج کے مطابق نہیں پایا ، فوری طور پہ اپنے دائرہ اثر میں میڈیا کا بازو مروڑنے میں ذرا دیر نہیں لگائی ہے۔۔ لیکن یہاں اس صورتحال سے جڑا جو اہم سوال ہمیشہ سے جواب سے محروم چلا آرہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا کسی بھی زبردست کی جانب سے میڈیا پہ کی جانے والی چڑھ دوڑ کو روکنے کی مد میں معاشرے کی اہم جانی مانی دیگر غیر ریاستی قؤتوں نے کبھی کوئی مزاحمت کی ہے اور کوئی بتائے تو سہی کے اہل فکر و نظر، ارباب قانون ، علماء دین اور دیگر عوامی و سیاسی قؤتوں نے اس ضمن میں میڈیا کا ساتھ دینے کا وبال کب کب مول لینا پسند کیا ۔۔ یا صرف زبانی کلامی ہمدردی پہ ہی اکتفاء کیا اور اکثر تو وہ بھی نہیں ؟؟ جبکہ میڈیا اگر یہ دعویٰ کرے تو ہرگز بیجا نہ ہوگا کہ اسنے تو ان سماجی و عوامی قؤتوں کے ہر کڑے دور اور ہر آزمائش میں انکا ساتھ دینے کی ہرممکن کوشش کی اور اس نازک حقیقت کے باوجود اس راہ میں کئی طرح کے سنگین خطرات مول لیئے ہیں کہ میڈیا ایک مشن کے ساتھ ساتھ ایک انڈسٹری بھی ہے اور ہر چینل اور اخبار کے سر پہ اس کے بیشمار کارکنوں کی بھاری معااشی ذمہ داریاں کا بوجھ بھی لدا ہوا ہے کہ جسے وہ اشتہارات کی آمدنی کی مدد سےسہارپاتے ہیں تو ایسے میں صرف میڈیا سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ کسی معاملے میں عوامی قؤتوں کی مدد کے بغیر بہت دورتک جاسکتا ہے جبکہ یہاں پہلے ہی میڈیا اس بات کا بھی شاکی ہے کہ اس نے جب کبھی بھی معاشرتی قؤتوں کی حمایت میں کوئ بھی اسٹینڈ لیا بھی ہے تو اسکے تحفظ اور بہبود کے لیئے کبھی کوئی کوئی آگے بڑھ کے نہیں آیا بلکہ اکثر ہوتا یہ رہا ہے کہ ۔۔
۔۔۔(سیدعارف مصطفیٰ)۔۔” مرے تھے جن کے لیئے، وہ رہے وضو کرتے”