تحریر: جعفر رضوی۔۔
اٹھاؤ اور گاڑی میں ڈالو۔‘ میری بات سُن کر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اور عامر لیاقت کی پہلی اہلیہ بشریٰ دونوں ہی ششدر رہ گئے۔یہ کراچی کے سب سے بڑے ہسپتال کا شعبۂ حادثات تھا اور رات گئے جس بے ہوش مریض کو اٹھانے کے لیے میرا لہجہ اتنا تحکمانہ ہو رہا تھا وہ تھے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین۔ لیکن تب تک عامر لیاقت حسین ٹی وی اینکر یا جیو نیوز کی پہچان سمجھے جانے والے میزبان کے طور پر مشہور نہیں تھے۔ یہ غالباً اپریل یا مئی 2002 کی بات ہوگی۔ تب میں کراچی کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کا کرائم رپورٹر تھا۔اُس رات اخبار کی کاپی چھپنے کے لیے روانہ کیے جانے کے بعد میں اپنے باس (سٹی ایڈیٹر) عامر ملک کے ساتھ کوئی دو بجے رات کو آئی آئی چندریگر روڈ پر دی نیوز کے دفتر سے نکل کر کھانا کھانے کے لیے انڈس ہائی وے پر واقع ہوٹل میں اپنا پسندیدہ کھانا کھانے جا رہا تھا اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔پرنٹ میڈیا کے زمانے میں کراچی جیسے شہر میں ہم صحافیوں خصوصاً کرائم رپورٹرز کو کھانا کھانے کا وقت رات کے اسی پہر ملتا تھا۔گاڑی عامر ملک چلا رہے تھے اور میں ہمیشہ کی طرح اُن سے کسی خبر پر بحث کرتا ہوا جا رہا تھا کہ عائشہ منزل چورنگی کے بالکل قریب ہی میرے فون کی گھنٹی بجی۔دوسری طرف دی نیوز کراچی کے مارکیٹنگ ایگزیکٹیو احمد جمال تھے۔ ’کہاں ہیں؟‘ بے تکلف دوست احمد جمال نے حسب عادت ہیلو ہائے کیے بغیر ہی پوچھا۔
کھانا کھانے ہائی وے جا رہا ہوں، عامر کے ساتھ۔‘ میں نے جواب دیا۔
آپ کو تھوڑی دیر اور بھوکا رہنا پڑے گا۔۔۔’ احمد نے کہا۔ ‘مگر کیوں۔۔۔؟’ میں یہ سن پر کچھ چِڑ سا گیا۔
آغا خان ہسپتال آ جائیں۔‘ احمد نے محبت بھرے لہجے میں نرمی سے کہا۔
یار ۔۔۔کیوں؟‘ میں اب تحمّل کھونے والا تھا۔
آئیے پھر بتاتا ہوں۔ معاملہ آپ ہی حل کر سکتے ہیں۔ جلدی پہنچیں۔ میں راستے میں آپ کو جوائن کرتا ہوں انچولی سے نکل کر،‘ احمد جمال نے کہا۔کچھ بات پتا نہ ہونے کے باوجود، بھوک سے بے حال ہونے اور چڑ جانے کے باوجود جانا ہی پڑا۔سو میں اور عامر ملک ایک گاڑی میں اور احمد جمال اور ’دی نیوز‘ کی مارکیٹنگ میں اُن کے کوئی دوست دوسری گاڑی میں آغا خان ہسپتال کی جانب رواں تھے۔گاڑی جیسے ہی آغا خان ہسپتال کے شعبۂ حادثات کے دروازے پر رُکی تو ہم سب اُترے اور قریباً بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔جو پہلی شکل مجھے دروازے پر پریشان حال نظر آئی وہ عامر لیاقت حسین کی (پہلی) اہلیہ بشریٰ صاحبہ کی تھی۔انھیں دیکھتے ہی میں احمد جمال کی طرف مڑا۔ ’عامر لیاقت؟‘ میرے لہجے میں شدید حیرت تھی۔
جی۔۔۔‘ احمد جمال نے جھینپے جھینپے لہجے میں بات ٹالنے کی کوشش کی۔
ہوا کیا ہے؟‘ میں نے پوچھا۔
’خودکُشی کی کوشش۔۔۔‘ احمد نے چلتے چلتے بتایا۔ تب تک ہم وارڈ کے تقریباً اندر پہنچ چکے تھے۔ اندر کا منظر کوئی بہت خوش کُن نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔اندر میرے دیرینہ دوست اور تب ’ایف ایم 101‘ نامی ریڈیو کے میزبان اور (جلد ہی لانچ ہونے والے) جیو نیوز ٹی وی کے ممکنہ میزبان عامر لیاقت ایک بیڈ پر سُکڑے ہوئے قریباً بے ہوش حالت میں پڑے تھے۔میں اور عامر لیاقت حسین دونوں ہی کچھ دن بعد لانچ ہونے والے جیو نیوز کے لیے بطور صحافی منتخب ہو چکے تھے۔کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی اندر کا کرائم رپورٹر پوری طرح صورتحال کو قابو میں کرنا چاہتا تھا۔میں نے وہاں کھڑے ایک نوجوان ڈاکٹر سے پوچھا ’کیا صورتحال ہے؟
نوجوان ڈاکٹر نے بتایا ’سٹمک (معدہ) واش کر دیا ہے سر مگر لیگزوٹنل (نیند آور سکون بخش سمجھی جانی والی دوا) کی 20 گولیاں کھا لی تھیں سر۔۔۔ اس لیے ابھی کچھ دیر تک ایسے ہی سوتے رہیں گے۔۔تب میری سمجھ میں آیا کہ قصّہ کیا تھا۔دراصل عامر لیاقت حسین نے خودکُشی کی کوشش کی تھی مگر بروقت ہسپتال پہنچا دیے گئے تھے جہاں ڈاکٹرز نے اُن کا معدہ صاف کر کے دوا کا اثر تو زائل کر دیا تھا مگر چونکہ اقدام خودکُشی پاکستانی قانون کے تحت جرم تھا لہٰذا پولیس کیس بن گیا تھا اور ظاہر ہے کہ ہسپتال کے ڈاکٹرز نے مزید تفتیش یا قانونی کارروائی کے لیے پولیس کو بلوایا ہوگا جو (ہمارے وہاں پہنچ جانے تک) نہیں آ سکی تھی۔بس چونکہ عامر لیاقت میرے زمانۂ طالب علمی کے دوست بھی تھے لہٰذا اب مجھے ڈاکٹر عامر لیاقت کو وہاں سے ’بحفاظت‘ نکالنا بھی تھا۔ میں پھر بتا دوں کہ مجھے آج تک نہیں پتا کہ کون ایسا چاہتا تھا اور مجھے یہ ہدایت کس نے دی تھی۔تب ہی میں نے اپنے تحکمانہ انداز سے صورتحال پر حاوی ہونے کا فیصلہ کیا اور ہسپتال کے ماحول کے مطابق کارروائی کی۔اٹھاؤ، اور گاڑی میں ڈالو۔۔۔‘ میری بات سُن کر ڈاکٹر اور عامر لیاقت کی (اہلیہ) بشریٰ دونوں ہی ششدر رہ گئے مگر شاید میرے لہجے کی وجہ سے کسی نے کوئی سوال جواب کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔احمد گاڑی لگاؤ دروازے پر۔‘ میں نے پھر تقریباً حکم دینے والے انداز میں ہدایت کی۔ احمد نے دروازے پر گاڑی لگائی مگر تب تک دو سینیئر ڈاکٹرز آن پہنچے۔
جب ہم نے انھیں لے جانے کی کوشش کی تو دونوں سینیئر ڈاکٹرز نے تقریباً چِلّا کر پوچھا ’کہاں لے جا رہے ہیں آپ انھیں؟ آپ ایسے نہیں لے جا سکتے، وہ خطرے میں ہو سکتے ہیں اور پولیس بھی نہیں آئی ابھی تک۔بہرحال احمد جمال نے گاڑی دروازے پر ہی لگا دی ہم نے بے ہوش عامر لیاقت کو بیڈ سے گاڑی میں منتقل کیا اور میں نے احمد جمال کو ہدایت بھی کی اور آنکھ کا اشارہ بھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اب کسی بھی سوال اور آواز کے بلند ہونے سے پہلے ہی ہسپتال سے نکل جایا جائے اور ایسا ہی ہوا بھی۔ہم سب گاڑیوں میں سوار ہوئے اور بے ہوش عامر لیاقت حسین کو اُن کی اُس وقت کی رہائش گاہ کی جانب لے جایا گیا مگر میں ہسپتال سے نکلتے ہی عامر ملک کے ساتھ کھانے کی تلاش میں نکلا۔رات کے باقی حصّے میں ملنے والی معلومات کے مطابق (شاید) والدہ کی مرضی کے خلاف شادی کر لینے والے عامر لیاقت حسین کی اپنی والدہ (بیگم محمودہ سلطانہ) سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تھی جس کے بعد انتہائی دلبرداشتہ عامر لیاقت حسین نے خواب آور دوا کی 20 گولیاں کھا کر خودکُشی کی کوشش کی تھی۔وہ دوا کھاتے ہی گھر سے نکل آئے تھے اور نہ جانے کیسے قریب واقع پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر (کراچی سٹیشن) کے قریب سڑک پر کسی ٹیکسی ڈرائیور کو بے ہوش حالت میں ملے تھے، جو جان بچانے اور انھیں طبّی امداد بہم پہنچانے کی غرض سے آغا خان ہسپتال لے آیا تھا اور وہاں طبّی امداد کے دوران ڈاکٹرز کا اندازہ ہوا کہ دوا کی اتنی زیادہ مقدار کھانے سے ایسا ہوا اور یہ اقدامِ خودکُشی ہی ہو سکتا ہے۔
اگرچہ بعد میں عامر لیاقت سے اُن کی پوری زندگی رابطے اور ملاقاتیں بھی رہیں اور ساتھ کام بھی کیا اور سوشل میڈیا پر اُن کی اہلیہ سے بھی رابطہ رہا مگر میں نے اس بات کا تذکرہ دونوں سے پھر کبھی نہیں کیا۔یہ پہلا یا آخری موقع نہیں تھا جب تنازعات سے پھر پور مگر ایک ’ایونٹ فُل لائف‘ گزارنے والے عامر لیاقت حسین نے کوئی انہونی کی ہو۔عامر لیاقت حسین اور میں سنہ 1980 کی دہائی سے دوست رہے تھے، تب سے جب وہ تعلیمی اداروں میں ہونے والے مباحثوں کے بڑے معروف اور نامور ’خطیب‘ (ڈیبیٹر) ہوا کرتے تھے اور میں نیشنل سٹوڈینٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کراچی کا جنرل سیکرٹری اور صدر تھا۔یہ تعلق دراصل مختلف تعلیمی اداروں کے درمیان بین الاضلاعی ’مباحثے‘ یا پھر ریڈیو پاکستان کی نشریات ’بزمِ طلبا‘ سے استوار ہوا تھا۔تب ہم دونوں سکول کے طالبعلم تھے اور ایسے مباحثوں اور مقابلوں میں بھرپور شرکت کرتے تھے۔ میں سامع کی حیثیت سے اور وہ بڑے ’دبنگ ڈبیٹر‘ کی حیثیت سے۔کوئی شک نہیں کہ وہ تب سے ہی واقعی ایک نامور اور مشّاق ’خطیب‘ تھے بلکہ ’مباحثے‘ کی اصطلاح میں ’پتّے باز‘ ڈبیٹر تھے۔ یہی شہرت انھیں تعلیمی اداروں سے سکول کے زمانے میں ہی ریڈیو تک لے گئی تھی جو اس وقت کا انتہائی طاقتور الیکٹرونک میڈیا تھا۔
اچھے زمانے کے اچھے دور میں ریڈیو پاکستان سے طلبا کی اُن خصوصیات کو اجاگر کرنے اور مستقبل کے خطیب، شاعر، دانشور، فلسفی پیدا کرنے کے لیے ریڈیو پر مشاعروں اور مباحثوں کا اہتمام باقاعدگی سے ہوا کرتا تھا اور اس سب کے روحِ رواں تھے اُس وقت ریڈیو پاکستان (کراچی اسٹیشن) کے ڈائریکٹر پروگرام یاور مہدی صاحب، جنھیں پورا شہر یاور بھائی کہا کرتا تھا۔یاور (مہدی) بھائی تعلیمی اداروں سے ایسے ’ٹیلنٹڈ‘ طلبا کی سرپرستی اور انھیں ’پالش‘ کر کے سماج میں اپنا مقام دلوانے اور اس وقت کی زبان میں ’ایسے پودوں کی آبیاری‘ کے لیے مشہور تھے۔آج اور اس زمانے کے بہت بڑے بڑے نام، بی بی سی اردو کے مشہور ترین ریڈیو پریزینٹر شفیع نقی جامعی ہوں یا آگے چل کر نواز شریف اور بے نظیر بھٹّو کے مشیر رہنے والے اور پھر امریکہ میں پاکستان کے سفیر مقرر ہونے والے حسین حقانی، ولی رضوی جیسے صحافی ہوں یا آئندہ زندگی میں ریڈیو ٹی وی کے ذریعے معروف ترین اور مشہور ترین میزبانوں میں سے ایک عامر لیاقت حسین، سب کے سب ’یاور بھائی کی پروڈکشن‘ کہلاتے رہے اور اس پر فخر بھی کرتے رہے۔عامر لیاقت حسین بھی ’یاور بھائی کی پروڈکشن‘ تھے اور کیوں نہ ہوتے۔ وہ شیخ لیاقت حسین اور بیگم محمودہ سلطانہ کے چھوٹے اور چہیتے فرزند تھے۔شیخ لیاقت حسین (تب) مہاجر قومی موومنٹ کہلانے والی پاکستان کی تیسری بڑی سیاست ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما تھے۔عامر کی والدہ بیگم محمودہ سلطانہ سندھ کے سب سے بڑے قوم پرست رہنما سمجھے جانے والے سائیں جی ایم سیّد کی (منہ بولی) بیٹی کہلاتی تھیں۔بھائی عمران لیاقت بھی زبردست خطیب تھے اور مجالس عزا سے بھی خطاب کرتے رہے جبکہ والدین تو سیاسی و سماجی حلقوں میں نامی گرامی شخصیات تھیں۔عمران بڑے اور عامر چھوٹے فرزند تھے مگر تھا سارے کا سارا گھرانا پورے شہر میں مشہور۔ ایسے گھرانے کے چشم و چراغ عامر لیاقت کو اپنا مقام بنانے سے کون روک سکتا تھا۔ وہ بھی تب جب ’ٹیلنٹ‘ کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔
غالباً 1989 میں (جب میں این ایس ایف کراچی کا سیکرٹری جنرل تھا) ہماری تنظیم نے طب کی تعلیم کے لیے کراچی کی سب سے مشہور درسگاہ ’ڈاؤ میڈیکل کالج‘ ( تب تک یونیورسٹی نہیں بنا تھا) میں ایک ’بیلون ڈیبیٹ‘ (کرداروں پر مشتمل ) مباحثے کا اہتمام کیا۔بیلون ڈیبیٹ، عام مباحثوں سے اس لیے مختلف ہوتی تھی کہ اس کے دوران (اکثر) تاریخ کے سیاسی و سماجی کرداروں (مثلاً پھولن دیوی، مغل بادشاہ اکبر، جرمن چانسلر ہٹلر، مسولینی، کارل مارکس وغیرہ) ڈائس پر آ کر اپنے وقت میں کیے جانے والے اقدامات کا ’دفاع‘ کرتے تھے۔تو ڈاؤ میڈیکل کالج میں اس مباحثے کا اہتمام کرنے والے این ایس ایف کے یونٹ سیکرٹری نے (جن کا نام بوجوہ شائع نہیں جا سکتا) رات قریباً پونے ایک بجے گھبرائی ہوئی حالت میں مجھ سے رابطہ کیا۔ ’ساتھی، آپ کی مدد چاہیے۔
کیوں۔‘ میں نے پوچھا۔
’ساتھی صبح بہت بڑی بیلون ڈیبیٹ رکھی ہے۔ جس میں دیگر کرداروں کے ساتھ سب سے اہم کردار چنگیز خان کا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبا اور آل پاکستان مہاجر سٹوڈینٹس آرگنائزیشن کے درمیان جھگڑا ہو گیا ہے۔اب ہوا یہ ہے کہ جس ڈیبیٹر کو چنگیز خان کا کردار ادا کرنا ہے وہ اُن متحارب تنظیموں میں سے ایک کا سیاسی کارکن بھی ہیں اور ابھی ابھی انھوں نے مجھے مطلع کیا ہے کہ دونوں تنظیموں کے درمیان اس کشیدگی کی وجہ سے وہ کل ڈی ایم سی نہیں آنے والے، اب ہمارا چنگیز خان کا کردار کون ادا کرے گا۔’اگر صبح ’چنگیز خان‘ پنڈال میں نہ آیا تو بڑی بے عزّتی ہو سکتی ہے اور تنظیم کی شبیہ متاثر ہو سکتی ہے۔ کیا آپ کوئی مدد کر سکتے ہیں ؟‘ یونٹ سیکریٹری نے بے بسی سے پوچھا۔میں نے اپنے ساتھی کو تسلّی دی کہ ’ٹھیک ہے، کچھ کرتے ہیں۔مگر گھبرائے ہوئے ساتھی نے کہا کہ ’مسئلہ وقت کی کمی کا ہے۔ آٹھ بجے کالج کھل جائے گا۔ رات کا ایک بجنے والا ہے۔ آٹھ گھنٹے میں کوئی ایسا ڈبیٹر ملے گا کہاں سے جو تاریخ بھی جانتا ہو، چنگیز خان کو بھی اور بیلون ڈیبیٹ کو بھی جانتا ہو۔میں نے کہا ’تھوڑا سا وقت دیں ساتھی کچھ کوشش کر لیتے ہیں۔تب میں تنظیم کے (اُس وقت کے) مرکزی صدر حسن ایلیا کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ذرا ہی دیر میں ہم مشاورت کر کے اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر پورے شہر میں اس وقت ایسا کوئی کر سکتا ہے تو وہ ہیں عامر لیاقت حسین۔عامر اُس وقت مختلف تعلیمی اداروں کے ڈبیٹر ز کی مرکزی تنظیم ’ڈبیٹنگ سوسائٹی‘ چلا رہے تھے۔بس پھر کیا تھا۔ دسمبر 1989 تک موبائیل فونز کا تصِّور بھی نہیں تھا اور معزز گھرانوں میں رات دیر گئے دروازہ بجانا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اس کافی سرد سی رات کو بھی میں اور حسن ایلیا ایک موٹر سائیکل پر بیٹھ کر رات ایک بجے کے لگ بھگ خداداد کالونی میں واقع عامر لیاقت حسین کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔دروازے پر رات کے اس پہر ہمیں دیکھ کر حیران ہونے والے عامر لیاقت حسین نے ڈرائنگ روم میں چائے پلاتے ہوئے بہت غور سے ہماری بات سُنی۔کچھ سوالات کیے اور پھر اپنے مخصوص انداز سے کہا ’ہو گیا، تم جاؤ، آ جائے گا چنگیز خان صبح۔مگر مجھے تسلّی نہیں ہوئی۔ میں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ ’یار تنظیم کی عزّت کا معاملہ ہے۔ اپنی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کا کوئی ایسا رکن دے دو جو یہ کردار نبھا بھی سکے اور مباحثے کا معیار ڈی ایم سی کے مطابق برقرار بھی رہ سکے۔
سوچ لو عامر، یاور (مہدی) بھائی جیوری کے سربراہ ہیں۔‘ میں نے اپنی گھبراہٹ عامر لیاقت کے حوالے کر دی۔
یار کہہ دیا تو کہہ دیا، جاؤ جعفر بھائی جاؤ، آ جائے گا چنگیز خان۔ تم فکر نہیں کرو۔‘ عامر نے بڑے پُراعتماد لہجے میں دعویٰ کیا۔تسلّی تو نہیں ہوئی مگر کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ سو شہر کے سب سے نامور ڈبیٹر کی بات پر اعتبار کر کے اور دراصل اپنی اور این ایس ایف دونوں کی عزت داؤ پر لگا کر ہم وہاں سے نکلے اور سوچا کہ یہی جوا کھیلا جا سکتا تھا۔بے چینی سے سوتے کم اور جاگتے زیادہ رات گزاری اور صبح ساڑھے سات بجے یعنی وقت سے بہت پہلے میں اور حسن ایلیا کسی ’ناگہانی‘ سے نمٹنے کی ہلکی سی اُمّید لیے ڈی ایم سی جا پہنچے۔ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ خود عامر لیاقت آ پہنچے۔ یقین جانیے پہلی بار عامر لیاقت حسین کو دیکھ کر ہی تسلّی کا احساس ہوا۔صرف آٹھ گھنٹے کے نوٹس پر پنڈال کے سامنے چنگیز خان بن کر کھڑا ہو جانے والا عامر لیاقت حسین ایسے مدلل لہجے اور اتنے مضبوط دلائل سے بولا کہ پنڈال نے چنگیز خان کے کردار کو بھی مثبت ووٹنگ دے ڈالی۔وہ ٹرافی جیت کر گیا اور ساتھ ہی ہمارے دل بھی، سیاسی مخالف تھا مگر اُس کڑے وقت میں بھی دوستی بھی نبھائی اور اپنا ’ٹیلنٹ‘ بھی ایسے دکھایا کہ یاور مہدی جیسی شخصیت بھرے پنڈال میں تعریف پر مجبور ہو گئی۔ڈی ایم سی کا ’معین آڈیٹوریئم‘ کئی منٹ تک اس ’پرفارمنس‘ پر تالیوں سے گونجتا رہا۔ ’کم بخت، غضب کا اوریٹر ہے۔۔۔‘ جیسے جملے سنائی دیے۔ طلبا نے کھڑے ہوکر اس کی فتح پر دل کھول کر داد دی۔
وہ عالم دین یا مذہبی سکالر تھا یا نہیں؟ ٹی وی پر رمضان ٹرانسمیشن میں آیات و تلاوت اور زبردست و متنازع مذہبی امور پر بحث و مباحثے کو اینکر کر کے اُسی ٹی وی پر ’ناگن ڈانس‘ کر سکتا تھا یا نہیں؟ اپنی نشریات میں شریک ایک سادہ لوح انسان سے ’آم کھائے گا؟‘ کا توہین آمیز سوال حقارت انگیزی سے پوچھ سکتا تھا یا نہیں؟یہ سارے فیصلے آپ کے حوالے۔
میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ٹی وی چینل پر جس عامر لیاقت کو دیکھ کر اُس کے ناظرین، خاص طور پر خواتین سمجھنے لگتی تھیں کہ آج تو رمضان کی اس بابرکت رات میں دعائیں قبول ہو ہی جائیں گی، بند کمرے میں اُسی عامر لیاقت حسین کے ساتھ نشست کی جائے تو باون گز کی زبان کے ’کرشمے‘ سے کانوں سے دھواں نکلنے لگتا تھا۔عجیب شخصیت تھا۔ شیعہ حلقے میں زبردست عزادار اور محب و مقلد اور امامت کا پیروکار بن جاتا تھا اور سُنّی حلقے میں خلافت کا مکمل مبلغ۔ایسی ہی کوششوں سے کبھی ایک فرقہ ناراض ہو جاتا تھا تو کبھی دوسرا سوشل میڈیا پر اس کے خلاف مہم چلانے لگتا مگر کمال یہ تھا کہ چاہے وہ کسی بھی چینل پر ہو، کسی بھی فرقے کہ اکابرین اُس کی نشریات میں شرکت کو کبھی منع نہیں کر پاتے تھے۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ عامر لیاقت پرنٹ میڈیا کے زمانے میں ’ایم کیو ایم کا اخبار‘ سمجھے جانے والے روزنامہ ’پرچم‘ کا صحافی تھا۔شاید ملک کی تاریخ کا کم عمر ترین ایڈیٹر بھی رہا۔
تنازعات اور عامر کا چولی دامن کا ساتھ رہا مگر ایک ایونٹ فُل لائف بھی اُسی نے گزاری۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں وہ وزیر مملکت برائے مذہبی امور رہا۔ اُس زمانے میں کسی کیس کے سلسلے میں اُسے ’کسی‘ کی ’مدد‘ کے لیے وویمن پولیس سٹیشن بھی جانا پڑا۔تب تک میں کرائم رپورٹر ہو چکا تھا مگر کسی وجہ سے پولیس حُکّام عامر لیاقت کو اس فرد تک رسائی دینے سے ہچکچا رہے تھے جس کے لیے وہ تھانے پہنچے تھے۔ شاید ’خفیہ والوں‘ کا کوئی معاملہ تھا۔بس پھر تو قیامت ہی ہو گئی۔ ایک وزیر مملکت کو بھی رسائی نہیں مل رہی تھی تو آپ خود اندازہ کر لیجیے کہ کتنا نازک معاملہ تھا۔اچانک عامر لیاقت حسین کا سیاستداں بیدار ہوگیا۔ اُس نے چیخ کر کہا ’اچھا، تو پھر میں ابھی جنرل مشرف کو سوتے سے اٹھا دیتا ہوں۔ آپ کیسے منع کر سکتے ہیں ہماری درخواست ماننے سے؟‘ عامر لیاقت نے موقع پر موجود حُکّام کو دھمکی دی اور یہی دھمکی کام بھی کر گئی۔عامر لیاقت جنرل مشرف کا سوتے سے اٹھا سکتے تھے یا نہیں لیکن تھانے میں موجود حُکّام کی نیند ضرور اُڑا سکتے تھے۔ اگر میری یادداشت درست کام کر رہی ہے تو صدر مشرف کے معاون اور انتہائی قریبی قابل اعتماد ساتھی بریگیڈیئر اختر ضامن بھی تھانے آئے تھے اور پھر بات عامر لیاقت ہی کی مانی گئی۔
جب وہ وزیر بن کر پہلی بار دی نیوز آئے تو رات کو کھانے پر جانے کا قصد کیا گیا۔ ہمیشہ کی طرح ’ان پریڈکٹیبل‘ (ناقابل پیشگوئی) عامر لیاقت حسین نے اُس رات بھی غیر متوقع انداز اپنایا۔اپنی گاڑی سے اُترے ، دوست کی نشست کے قریب آئے اور دروازہ کھول کر کہنے لگے ’تم کیوں اس گاڑی میں بیٹھ رہے ہو؟ دیکھو بھائی ہم تو وزیر بھی بن گئے اور باقی سارے شوق بھی اس زندگی میں پورے کر لیے، اب اگر اس پرتشدد شہر میں کوئی اس گاڑی پر حملہ کر کے، گھات لگا کر گولی بندوق یا بم دھماکے کے ذریعے ہمیں مار بھی ڈالے، تو بھی ہمیں مرتے وقت کوئی خلش اور کوئی حسرت نہیں رہ جائے گی کیونکہ ہم نے تو عروج دیکھ لیا، وزیر بن گئے، سارے باقی شوق بھی پورے کر لیے۔۔۔ تم کیوں اس گاڑی میں بیٹھ رہے ہو؟ صرف اس لیے کہ جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھنے کا شوق پورا کر سکو، تو بھائی اگر ہم پر کوئی حملہ ہوا اور ہم مر بھی گئے تو کیا؟ سب دیکھ لیا۔۔ تم نے ابھی کچھ بھی نہیں دیکھا۔۔۔ ابھی تو پوری زندگی سامنے پڑی ہے۔ تم جھنڈے والی گاڑی کے شوق میں جان پر کھیلنے کو کیوں تیار ہو بھائی؟‘
میری مانو اُتر جاؤ، پھر کہہ رہے ہیں تم سے، کہ ہم نے تو ایسی زندگی گزار لی کہ مر بھی گئے تو کوئی افسوس نہیں ہو گا ہم کو۔۔۔بعد کی زندگی، تنازعات سے بھرپور سہی، مگر شہرت کی بلندی و عروج نے ثابت کیا کہ عامر لیاقت نے واقعی ایسی زندگی گزار لی کہ ’مر بھی گیا، تو افسوس نہیں ہوا ہو گا۔‘
کم بخت غضب کا اوریٹر تھا۔۔۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔