تحریر: مبشرعلی زیدی۔۔
چند دن پہلے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ منگل کو بال کاٹنا منع ہے۔میں نے پوچھا کہ کیوں منع ہے؟ اس نے بتایا کہ امام نے منع کیا ہے۔میں نے پوچھا کہ امام نے تمھیں خود بتایا؟ اس نے کہا، نہیں۔ مولانا صاحب نے بتایا ہے۔میں نے پوچھا کہ مولانا صاحب کو امام نے بتایا؟ اس نے کہا، نہیں۔ مولانا نے کتاب میں پڑھا تھا۔میں نے پوچھا کہ کتاب امام نے چھاپی تھی؟ اس نے کہا، نہیں۔ کتاب پاکستان میں اردو میں چھپی ہے اور ایک عربی کتاب کا ترجمہ ہے۔میں نے پوچھا کہ ترجمہ امام کو دکھالیا تھا؟ اس نے کہا، نہیں۔ امام کو کیسے دکھاتے۔ کتاب کسی عرب عالم نے لکھی تھی۔میں نے پوچھا کہ عرب عالم نے کتاب امام کو دکھائی تھی؟ اس نے کہا، نہیں۔ عرب عالم نے امام کے دنیا سے پردہ کرنے کے صدیوں بعد روایات سن کر کتاب لکھی تھی۔
میں نے کہا کہ چونکہ روایت زبانی چلی اور صدیوں بعد لکھی گئی تو کچھ سوالوں کے جواب درکار ہوں گے۔ مثلاً یہ کہ کیا اس روایت کے تمام راوی عاقل اور بالغ تھے؟ کیا سب کا ایمان شک و شبے سے پاک تھا؟ کیا ان کی قوت سماعت بالکل ٹھیک تھی؟ کیا ان کی یادداشت قابل بھروسا تھی؟ کیا انھوں نے مزید روایات بھی کی ہیں اور وہ کس حد قابل یقین ہیں؟
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کتاب کا سب سے قدیم نسخہ کتنا پرانا ہے؟ اس کے قدیم ہونے کا کوئی ثبوت ہے یا محض دعویٰ ہے؟ اس کے ایک سے زیادہ متون کے نسخے تو دستیاب نہیں؟ اسے لکھنے والا معروف عالم تھا یا گمنام؟ کتاب لکھتے ہوئے اس کی ذہنی حالت کیسی تھی؟ کیا اس نے مزید کتابیں بھی لکھی ہیں؟ ان کتابوں میں شامل مواد کتنا معتبر سمجھا جاتا ہے؟
اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ ترجمہ کرنے والا دونوں زبانوں پر کتنا عبور رکھتا تھا؟ کیا اس نے کسی عالم سے کتاب کی ایڈیٹنگ کروائی یا نہیں؟ پروف ٹھیک پڑھے گئے یا نہیں؟ اس میں کسی خاص نقطہ نظر کی طرف جھکاؤ تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مترجم نے اپنی مرضی کی کچھ چیزیں ترجمہ کردیں اور اپنی مرضی سے کچھ چیزیں چھوڑ دیں؟
دوست نے کہا، تم اتنی مین میخ کیوں نکال رہے ہو۔ میں نے کہا، اس لیے تم نے اسے مذہب کا معاملہ بنادیا ہے۔
میں نے پچیس سال بڑے میڈیا اداروں کے نیوزروم میں کام کیا ہے۔ انتہائی پروفیشنل اور ایمان دار صحافیوں کو کام کرتے دیکھا ہے۔ سب لوگ ہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ جیسا واقعہ ہو، بالکل ویسے رپورٹ کریں۔ جس شخص کی گفتگو شائع کرنی ہو، اس کا ایک لفظ بھی ادھر ادھر نہ ہو۔ لیکن ہوجاتا ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود بات کچھ کی کچھ بن کر چھپتی ہے۔ پھر ہر شخص اس کا اپنی مرضی کے مطابق مطلب لیتا ہے۔
آج کی خبر آج چھپتی ہے تو رنگ بدل لیتی ہے۔ صدیوں پہلے کے الفاظ، جملے، محاورے، مثالیں، تلمیحات، اشارے، قصے، مکالمے اور واقعات کیسے حرف بہ حرف ہم تک پہنچ سکتے ہیں۔دوست نے زچ ہوکر کہا، تم دیوانے ہو۔ ملحد ہو۔ کافر ہو۔ جہنم میں جلو گے۔ میں تو بغیر دلیل کے مانتا ہوں کہ منگل کو بال کاٹنا منع ہے۔(مبشر علی زیدی)۔۔
(سینئر صحافی مبشرعلی زیدی وائس آف امریکا سے منسلک ہیں اور ان دنوں امریکا میں رہائش پذیرہیں۔۔یہ تحریر ان کی ٹائم لائن سے لی گئی ہے جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔