zindagi pari hai abhi

“ممنوع دائروں میں”

تحریر: شکیل بازغ۔۔

میں ایک ادارے میں کام کرتا تھا۔ بطور سوشل میڈیا ہیڈ۔ سات پروجیکٹس میں سے ایک ہمیں نوجوان نسل کو پیغام اقبال سے بھی روشناس کرانا تھا۔ میرا ماننا تھا کہ اول تو پروگرام کا نام “اذانِ اقبال” رکھا جائے، دوسرا اس کا ہوسٹ اقبالیات کا ماہر ہو۔ میرے ارد گرد لوگوں میں سے ایک صاحب یو ای ٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہ چکے۔ انہوں نے اذان اقبال ٹائٹل سے اختلافی نوٹ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ اسلام سے متنفر ہیں اس لئے اذان کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ میں نے بخوشی دیگر ناموں کی تجاویز طلب کیں۔ انہوں نے اپنے سرکاری عہدے اور ادارے کے چیئرمین کے قریبی ہونے کی بنا پر خود کو ماہر اقبال اور ہوسٹنگ کیلئے موزوں اور قابل ترین بتایا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کی میزبانی کی قابلیت جانچنے کیلئے ایک آڈیشن کر لیں گے۔ ہوسکتا ہے ہوسٹ ہمیں گھر میں ہی مل جائے ساتھ ہی برملا سوال داغا کہ علامہ محمد اقبال کے روحانی استاد کون تھے۔ یہاں سے معاملہ اتنا بگڑا کہ ہمیں وہ پروگرام میری ہیڈ شپ باقی رہنے تک اور اسکے بعد ابھی تک شروع نہ ہوسکا۔

گذشتہ کل ایک  دوست کے گھر گیا۔ جہاں اسکے بچوں کے ماموں گاؤں سے آئے ، ساتھ میں دیسی مرغی کے چوزے ساتھ لائے ، لکڑی سے مرغیوں کا ڈربا بنا رہے تھے۔ میرے دوست کے پانچوں بیٹے اس کے آس پاس کھڑے اسے مشورے دے رہے تھے۔ میں کچھ دیر غور سے دیکھتا رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔ میں نے ان کے ماموں سے گپ شپ کرتے ہوئے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بیس سال سے لکڑی کا کام کر رہا ہوں۔ دروازے فرنیچر ڈربے وغیرہ بناتا ہوں۔ میں نے بچوں کی جانب سے آئے اگلے مشورے پر ماموں کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا کہ بیٹا آپ کے ماموں اپنے کام میں ماہر ہیں انہیں خاموشی سے کرنے دو۔ اور سیکھو کہ وہ کیسا کرتے ہیں۔

آپ یوٹیوب پر not my job  ٹائپ کریں اب آپ کے سامنے دنیا بھر سے لوگوں کی ناکامی کے وژؤل ثبوت ملیں گے۔ کچھ لوگ ناٹ مائی جاب کے اس قدر پابند ہوتے ہیں۔ کہ انکی استقامت پر رشک آتا ہے۔ یوٹیوب پر ایک وڈیو دیکھی کہ ایک شخص جس کا کام روڈ سائیڈ پر سیفٹی لائن لگانا ہے۔ جبکہ سڑک پر درخت کی ٹہنی گری ہے۔ اس شخص نے ٹہنی کو ہٹانا بھی دوسرے کی ڈومین میں مداخلت سمجھتے ہوئے ٹہنی وہیں رہنے دی۔ اور ٹہنی کے آس پاس لائن کھینچ کر آگے کی جانب بڑھ گیا۔ پاکستان میں ہم دوسروں کے کئی کام اخلاقا” بھی کرجاتے ہیں۔ چاہے اس کی ہمیں سوجھ بوجھ کم ہو یا سرے سے نہ ہو۔

ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ یعنی جو دوسرا کر سکتا ہے وہ میں بھی کر سکتا ہوں۔ یہ بات غلط بھی نہیں۔ لیکن جو دوسرا کر رہا ہے۔ اور وہ مہارت سے کر رہا ہے تو مجھے بھی معیاری کرنے کیلئے مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ بول نیوز کی لانچنگ سے پہلے جب آن لائن فارمز سب بھر رہے تھے تو وہاں خاص طور پر تاکید کی گئی تھی کہ آپ نے اپنے سی وی میں بالکل بھی یہ نہیں بتانا کہ آپ کو سب کچھ کرنا آتا ہے۔ بلکہ آپ جس عہدے کیلئے درخواست دے رہے ہیں۔ اس عہدے کا تجربہ اور نمایاں کارکردگی بتائیں۔ یہ بہت اچھی بات لگی تھی۔ جس کا کام اس کو ساجھے قول کی سمجھ تبھی آئی۔ بالفرض آپ کو معلوم ہو کہ کوئی کام کس فارمولے یا طریقے سے ہوتا ہے۔ تب بھی آپ کو اسے ذاتی طور پر کر کے تجربہ حاصل کرنا ہوگا۔

بحیثیت قوم پاکستان میں کام کاج کی بہترین تربیت کا فقدان ہمیشہ سے ہر سطح پر رہا ہے۔ آپ نے کسی سبجیکٹ میں ماسٹر یا ایم فِل کر لیا۔ لیکن آپ کو جاب کرتے وقت صفر سے شروع کرنا ہوگا۔ اور آپ سے کسی کم تعلیم یافتہ محض تجربے کی بنیاد پر آپ کو گائیڈ یا ٹرین کر رہا ہوگا۔ جو کتابوں میں آپ نے پڑھا ، عملا” اس کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ اور جو پریکٹیکلی آپ سیکھ رہے ہیں وہ کتابوں میں کہیں نہیں لکھا ہوتا۔ میٹرک ایف اے پاس کلرک اعلٰی افسران کو مشورے دے کر یا کلرکس کی  اجازت کے بغیر قلم نہیں چلاسکتے۔ بھئی جس نے ماسٹرز کیا ہے وہ ٹرینڈ ماسٹر ہوکر اداروں میں کیوں نہیں پہنچتا۔ تعلیمی اداروں میں رٹا سسٹم تو ہے۔ عملی تربیت کا کھُرا سِرا وجود نہیں ملتا۔ جس نے فنانس میں ماسٹرز کیا۔ وہ آپ کو میڈیا میں کام کرتا ملے گا۔ جس نے میڈیا ایجوکیشنز میں ایم فِل کیا وہ آپ کو کسی سکول کالج میں انگلش پڑھاتا ملے گا۔ سرکاری اداروں میں ملازمین کے انٹرویوز کریں۔ انکی پروفائلزپھرولیں۔ آپ کو معلوم ہوگا۔ کہ ایک پرچی کتنے کی بکتی ہے۔ اور نوکری کا حقیقی میرٹ کیا ہے۔ جہاں نظام نہیں ہوتا۔ یا نظام توہو لیکن اسے چلانے والے پیراشوٹرز ہوں اور اقربا پروری کے فضائل سمیٹتے ہوئے عہدوں پر آ براجمان ہوئے ہوں وہاں ادارے نظام اور معاشرہ تنزلی کی طرف جاتا ہے۔ اہل لوگوں کا زمانہ اب نہیں رہا۔ اور بالفرض کوئی اہل فرض شناس سربراہی عہدے پر آجائے تونا اہلوں کا ٹولہ اکھٹے ہو کر اسے کام کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ نہ رکے تو پھر اخلاقی حملے ہوتے ہیں۔ بالآخر وہ اپنی شرافت اہلیت اور قابلیت کی گٹھڑی اٹھا کر چل دیتا ہے یا پھر اسے نکلوا کر ہی دم لیا جاتا ہے۔

مزاج یہ بن چکا کہ اپنا کام بھی نہیں کرنا دوسرے کو بھی نہیں کرنے دینا۔ اور جو کرنا چاہتا ہے اسے اس بات پر مائل کرنا کہ بھئی کام میں عزت نہیں۔ حرام خوری اور چاپلوسی میں فائدہ بھی ہے عزت بھی۔ یہی مزاج ہے کہ ملک نالائق اور معاشرے کے بدترین سرکاری عہدوں اور حکمرانوں کو دے کر ملک بہترین چلانے کی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ ماہر وزیر خزانہ وہ سمجھا جاتا ہے جو آئی ایم ایف یا دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے پر اعتماد لہجے اور زبان میں آسان شرائط پر مالی امداد اور قرض لینے کے قابل ہو جائے۔ دیگر اداروں میں افسران کو کلرک چلا رہے ہیں۔ کلرکوں کو رشوت چلا رہی ہے۔ اور عوام کو اللہ کا فضل چلا رہا ہے۔

ملک عزیز میں اسے صدر وزیر اعظم یا کسی اہم وزارت کا قلمدان دے دیا جاتا ہے جسے بس پارٹی کے قائد کی وفاداری کا اعتماد حاصل ہو۔ وزارت یا ملک چلانا تو وہ سیکھتے سیکھتے سیکھ ہی جائے گا۔ محلے کا سب سے نکھٹو بائی چانس ملک سے باہر چلا جائے تو۔ کچھ عرصے بعد اسکی واپسی پر اسے سیانڑا مان کر اسے سوئی سے جہاز بنانے اور چلانے کے تمام مشورے لئے جاتے ہیں۔ اور وہ دیتا بھی ہے۔

 جہلاء علماء کو علم دین سکھانے کوشش کررہے ہیں۔ عوام مولوی صاحب  سے سائنسی ایجاد کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اور سیاستدانوں کو سائنسدان بنا کر پوجا ہو رہی ہے۔ جو کبھی اپنی معاشی حالت بہتر نہ کر سکا وہ معاشی تجزیہ کار بن کر حکومت کو معیشت بہتر کرنے کے مشورے دے رہا ہے۔ جسے زیر تعلیم ہونا چاہیے اسے وزیر تعلیم بنا دیا جاتا ہے۔ جسے محافظ ہونا چاہیئے وہ سیاست کر رہا ہے۔ جسے ملکی بھلائی کیلئے مثبت اور پروڈکٹو سیاست کرنی چاہیئے وہ بچوں کوکسی مکتب میں الف ب پ پڑھا رہا ہے۔ جسے موچی ہونا چاہیئے وہ ایم پی اے یا بلدیاتی چیئرمین ہے اور جسے چیئرمین ہونا چاہیئے وہ موچی ہے۔ جسے جہاں ہونا چاہیئے وہ وہاں نہیں ہے۔ بلکہ سب حادثاتی طور پر مختلف جگہوں پر کام سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور ملک پچھتر سالوں سے تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔

کہنا یہ چاہتا ہوں کہ رائیٹ پرسن فار رائیٹ جاب کا فارمولا اپنایا جائے۔ دوسرے کے کام میں ٹانگ نہ اڑائی جائے۔ اپنا کام تندہی، توجہ اور دیانتداری سے اگر ہر شخص کرے تو یقین کریں سارا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ ملک قرضوں کی کھوکھلی معیشت کے بجائے حقیقی ریزرو کا حامل ہو کر چلے گا۔ معاشرہ بھی بہتر ہو گا۔ لوگ بھی خوشحال ہونگے۔ اور نجی و سرکاری تمام ادارے اور نظام صحیح چلیں گے۔ بس شروع کرنے کا ایک ہی کام ہے۔ کہ آئندہ کوئی پیسے دے کر جج نہ بنے۔ قانون سازی کیلئے قانون دان ہونا چاہیئے۔ وزیر خزانہ ومعیشت کوئی سمدھی نہیں بلکہ ماہر معیشت ہونا چاہیئے۔ اساتذہ کو احتجاج کی ضرورت پیش نہ آئے۔ غیر ضروری اشیاء کی درآمدات بند ہوں۔ اور ملکی ضرورت کی اشیاء سے اضافی برآمد کی اجازت ہو۔ حرام خور کو سزا ہو۔ اور مشورہ وہ دے جو ماہر ہو۔ اور افراد کا ممنوع دائروں سے بے دخلی کا رواج پنپنا چاہیئے۔واللہ اعلم۔۔(شکیل بازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں