crime free city 2

مالکان کیوں پریشان؟؟

تحریر: جاوید چودھری

میانوالی کے نیازی قبیلے کے کسی کسان نے عارف والا سے خربوزے خریدے‘ خربوزے میٹھے بھی تھے‘ خوشبودار بھی اور بڑے بھی‘ وہ بہت متاثر ہوا‘ اس نے دکاندار سے پوچھا ’’مجھے ان خربوزوں کا بیج کہاں سے مل سکتا ہے‘‘ دکاندار نے اسے بیجوں کی دکان پر بھجوا دیا‘ نیازی نے خربوزہ دکھایا اور اس کا بیج مانگ لیالیکن پھر اس کے ذہن میں آیا‘ مجھے کیا پتہ یہ بیج واقعی ان خربوزوں کا ہے بھی یا نہیں‘ اس نے دکاندار کو سلام کیا اور خربوزہ اٹھا کر اس کھیت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا جہاں سے وہ آیا تھا‘ وہ تلاش کرتا کرتا بالآخر اصل کسان تک پہنچ گیا۔اس نے اس سے بیج خریدے‘ میانوالی آیا‘کھیت تیار کیا اوریہ بیج زمین میں بو دیے‘ وہ چھ ماہ زمین‘ بیلوں اور خربوزوں پر محنت کرتا رہا‘ وقت پر پانی دیا‘ وقت پر کھاد اور کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کیا اور وقت پر خربوزے توڑے لیکن جب خربوزہ کاٹ کر کھایا تو عارف والا اور میانوالی کے خربوزے میں زمین آسمان کا فرق تھا‘ میانوالی کے خربوزے میں خوشبو تھی اور نہ مٹھاس‘ وہ پریشان ہو گیا‘ خربوزہ اٹھایا اور سیدھا عارف والاچلا گیا‘اس نے جس کسان سے بیج خریدے تھے وہ اس سے ملا‘ اس کے کھیت کا پھل توڑا‘ خربوزے کے ساتھ خربوزہ رکھا اور پھر پوچھا ’’بیج ایک‘ کھوالی اور محنت ڈبل لیکن دونوں کے سائز‘ خوشبو اور مٹھاس میں فرق‘ میں وجہ پوچھنے آیا ہوں‘‘۔

عارف والا کے کسان نے قہقہہ لگاکر جواب دیا ’’خان صاحب پھل میں مٹھاس اور خوشبو بیج سے نہیں آتی‘ مٹی سے آتی ہے‘ عارف والا کے خربوزے عارف والا کی مٹی کی وجہ سے میٹھے اور خوشبودار ہیں‘ صرف بیج کی وجہ سے نہیں‘ یہ بیج جب بھی عارف والا کی مٹی میں لگے گا تو اس میں خوشبو بھی ہو گی اور مٹھاس بھی‘ آپ یہاں کا بیج میانوالی لے جا سکتے ہیں لیکن آپ یہاں کی مٹی ساتھ نہیں لے سکتے  چنانچہ یہ ایشو رہے گا‘‘۔

میں پچھلے پندرہ برسوں سے صحافت کے ساتھ ساتھ موٹی ویشن‘ سیلف ہیلپ اور پرسنیلٹی ڈویلپمنٹ کا کام بھی کررہا ہوں‘ میں جب بھی بزنس مین‘ صنعت کاروں یا کمپنی کے مالکان کے سیشن لیتا ہوں تو یہ عموماً دو شکایتیں کرتے ہیں‘ ان کی پہلی شکایت ملازمین کے بارے میں ہوتی ہے‘ یہ کہتے ہیں ہم تین چار سال لگا کر بڑی مشکل سے لوگ تیار کرتے ہیں لیکن پھر کوئی دوسری کمپنی زیادہ تنخواہ دے کر انھیں لے جاتی ہے اور دوسری شکایت ہم فلاں فلاں کمپنیوں سے فلاں فلاں ٹیم لے کر آئے‘ یہ ٹیمیں وہاں ٹھیک پرفارم کر رہی تھیں لیکن یہ لوگ جوں ہی ہمارے پاس آئے ان کی پرفارمنس ختم ہو گئی‘ یہ یہاں ڈیلیور نہیں کر پا رہے‘ کیا وجہ ہے؟ میں ان دونوں سوالوں کے جواب میں انھیں یہ خربوزہ فلاسفی سناتا ہوں اور پھر عرض کرتا ہوں۔

آپ یہ بات پلے باندھ لیں‘ آپ کے ٹرینڈ ملازمین صرف بیج ہیں‘ دوسری کمپنی آپ کے بیج لے جا سکتی ہے لیکن یہ آپ کی مٹی نہیں اور وہ مٹی آپ ہیں‘ آپ جب تک موجود ہیں‘ آپ جس بھی بیج (شخص) کو اپنے کھیت میں بوئیں گے وہ فصل دے گا چنانچہ آپ بیجوں کے جانے پر پریشان نہ ہوں‘ آپ اصل طاقت پر توجہ دیں اور وہ اصل طاقت آپ ہیں‘ آپ نے ایک شخص ٹرینڈ کر لیا آپ مزید ہزاروں لوگ ٹرینڈ کر سکتے ہیں اور وہ ہزاروں ان جانے والوں سے زیادہ پرفارم کریں گے‘ دوسراایشو آپ دوسری کمپنیوں کے بیج چوری کر رہے ہیں‘ مٹی وہیں موجود ہے لہٰذا آپ خواہ کچھ بھی کر لیں‘ آپ زیادہ محنت کر لیں‘ زیادہ پانی‘ زیادہ کھاد اور ادویات کا زیادہ چھڑکاؤ کر لیں لیکن آپ کے خربوزے میٹھے نہیں ہوسکیں گے۔

ہم اگراس خربوزہ فلاسفی کا دائرہ مزید بڑھا لیں تو اس میں ملک بھی آ جائیں گے اور سسٹم بھی‘ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا چھوٹے ملک بڑے ملکوں سے سی ای اوز اورسسٹم امپورٹ کرتے ہیں لیکن یہ سسٹم اور یہ سی ای اوز دوسرے ملکوں میں پرفارم نہیں کر پاتے مثلاً آپ مہاتیر محمد کے ماڈل کو لے لیں‘ یہ ماڈل آج تک صرف ملائیشیا میں کامیاب ہوا‘ دنیا کے جس ملک نے بھی اسے کاپی کرنے کی کوشش کی اسے نقصان ہوا‘ طیب اردگان ماڈل بھی صرف ترکی‘ چینی ماڈل صرف چین‘ نیلسن مینڈیلا ماڈل صرف جنوبی افریقہ اور امام خمینی انقلاب صرف ایران میں کامیاب ہوا‘ یہ ماڈل دوسرے ملکوں میں پہنچ کر بری طرح ناکام بھی ہوئے اور ان ملکوں نے نقصان بھی اٹھایا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ماڈلز ان ملکوں کی مٹی میں پیدا ہوئے تھے اور دوسرے ملکوں نے صرف ان کے بیج امپورٹ کیے تھے اور یہ بیج وہاں پہنچ کر اگے ضرور‘ فصل بھی تیار ہوئی مگر پھل میں خوشبو اور ذائقہ نہیں تھا چنانچہ بیج بھی اہم ہوتے ہیں لیکن مٹی ان سے زیادہ اہم ہوتی ہے‘ یہ نہ ہو تو پھل میں ذائقہ اور خوشبو پیدا نہیں ہوتی۔(بشکریہ ایکسپریس)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں