majeed nizaami qaid sahafat

مجید نظامی قائد صحافت

تحریر: میاں حبیب۔۔

 آج امام صحافت، آبروئے صحافت مجید نظامی صاحب کا جنم دن ہے ایسی باوقار بااصول شخصیت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں ویسے تو اس دنیا میں جو آتا ہے وہ اپنی زندگی جی کر ابدی زندگی کی طرف چلا جاتا ہے لیکن اس دنیا میں کچھ لوگ اپنے لیے زندہ رہتے ہیں وہ اپنے سے آگے کا سوچتے ہی نہیں اور چند ایک لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندگی وقف کر دیتے ہیں وہ اپنے لیے نہیں سوچتے وہ اجتماعی سوچ رکھتے ہیں وہ دوسروں کے لیے زندہ رہتے ہیں اور ایسے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں مجید نظامی صاحب بھی ایسے چند لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے اپنے آپ کو نظریہ پاکستان کے لیے وقف کر رکھا تھا میں نے اپنی زندگی میں ان سے بڑا کوئی اور نظریاتی شخص نہیں دیکھا وہ پاکستان کے وکیل تھے انھوں نے ساری زندگی  ہر محاذ پر پاکستان کی وکالت کی وہ واحد شخصیت تھے جو پاکستان، قائد اعظم اور پاکستان کے مفادات کے خلاف جہاں کہیں سے آواز اٹھتی اس کے خلاف آخری حد تک جاتے انھوں نے نظریہ پاکستان کی ترویج کے لیے متعدد ادارے قائم کیے جو آج بھی نوجوان نسل کو قیام پاکستان کے مقاصد اور نظریہ پاکستان سے روشناس کروانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں انھوں نے اپنی ساری زندگی نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے وقف کر چھوڑی ان کا جینا مرنا پاکستان کے لیے تھا انھوں نے پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ دوٹوک موقف رکھا اور اس میں رتی برابر جھول نہ آنے دی کچھ لوگ ان کے اس سخت گیر موقف سے انھیں بھارت کا دشمن تصور کر تے تھے اور کہتے تھے کہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے تھوڑی لچک ہونی چاہیے لیکن مجید نظامی صاحب اپنے اصولوں پر اتنی سختی سے کاربند تھے کہ انھوں نے ساری زندگی بھارت کا دورہ نہیں کیا ان کی تمام باتیں وقت نے درست ثابت کیں بھارت کو جب جب ضرورت پڑی اس نے مذاکرات کا چینل چلا کر پاکستان کو استعمال کیا وقت نکالا اور اپنا کام کر کے دوبارہ پاکستان پر دباو ڈالنے کی کوشش کرتا رہا مجید نظامی صاحب بنیے کی خصلت کو سمجھتے تھے وہ برابری کی بنیاد پر بات کرنے کے قائل تھے وہ کشمیر کے مسلہ کے حل تک بھارت سے کسی قسم کی بات نہ کرنے کی سخت پالیسی پر عمل پیرا تھے انھوں نے بھارت کی جانب سے اٹھنے والی ہر آواز کا موثر جواب دیا یہی وجہ تھی کہ بھارت نوائے وقت اور مجید نظامی صاحب کو اپنا دشمن سمجھتا تھا مقبوضہ کشمیر، افغانستان، بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعات اور سرحدی معاملات پر وقت نے ثابت کیا کہ مجید نظامی صاحب جو کہتے تھے وہ درست تھا حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والی قوتوں کو ہمیشہ مجید نظامی صاحب اور نوائے وقت سے اپوزیشن سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن مجید نظامی صاحب کا اصول تھا کہ وہ حکومتی معاملات پر بےجا تنقید نہیں کرتے تھے وہ صرف ان معاملات میں راہ دکھاتے تھے جو وہ درست سمجھتے تھے اور اس میں نہ ان کی ذات کا کوئی مفاد ہوتا تھا نہ وہ اپنی خود نمائی کے لیے کرتے تھے وہ تو خالص پاکستان کے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہوتے تھے یہی وجہ تھی وقت نے ہمیشہ ان کے موقف کو درست ثابت کیا آج افسوس اس امر کا ہے کہ پاکستان میں ان کے پائے کا ایک بھی شخص نہیں جو اس ویژن کے ساتھ معاملات کو سمجھنے کا ادراک رکھتا ہو جو ملک کے کرتا دھرتاوں کو راہ دکھا سکے انھوں نے ہمیشہ جمہوریت کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا وہ بڑے سے بڑے جابر حکمران کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے سے نہیں گھبرائے انھوں نے اپنا ذاتی مالی نقصان کرنا گوارا کر لیا لیکن کبھی حق بات سے پیچھے نہیں ہٹے کئی دفعہ نوائے وقت کے اشتہار بند ہوئے انھوں نے سختیاں برداشت کر لیں لیکن اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے انھوں نے ہر معامعلہ پر رہنمائی فرمائی پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں بھی ان کا اہم کردار تھا جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے جواب میں پاکستان کی قیادت ڈگمگا رہی تھی تو انھوں نے دوٹوک الفاظ میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو کہہ دیا کہ اگر آپ نے ایٹمی دھماکے نہ کیے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی جس پر بالآخر پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرکے اعلان کرنا پڑا کہ ہم بھی ایٹمی قوت ہیں انھیں پاکستان اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم سے عشق تھا میں ایک قومی اخبار کا ایڈیٹر تھا اور اگست کے مہینے میں میں نے یکم اگست سے 14 اگست تک 14 کلر ایڈیشن شائع کیے جن میں قائد اعظم بطور سیاستدان، قائد بطور وکیل، قائداعظم بطور لیڈر، قائد اعظم بطور طالبعلم، قیام پاکستان میں خواتین کا کردار ،اقلیتوں کا کردار،نوجوانوں کا کردار، سیاستدانوں کا کردار جیسے موضوعات شامل تھے جسے انھوں نے بے حد سراہا مجھے بلوا کر شاباش دی وہ مجھے ہمیشہ ینگ ایڈیٹر کہہ کر بلاتے انھوں نے ایک استاد ایک شفیق مہربان بزرگ کی طرح ہمیشہ میری رہنمائی کی مجھے جب بھی حالات بارے کوئی کنفیوژن ہوئی میں نے مجید نظامی صاحب کے خیالات اور نوائے وقت سے رہنمائی حاصل کی مجید نظامی جیسی شخصیات قوموں کا اثاثہ ہوتی ہیں آج ان کی سالگرہ کے موقع پر میری حکومت سے درخواست ہے کہ مجید نظامی کی شخصیت کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ آنے والی نسل کو نظریہ پاکستان سمجھنے میں آسانی ہو۔(میاں حبیب)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں