تحریر: ضمیر آفاقی۔۔
آج جس عہد میں ہم زندہ ہیں اس میں ہر طرح کے میڈیا کی اہمیت اور افادیت بہت بڑھ چکی ہے سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے ذریعے عام عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہو کر مقبولیت ثابت کرتی پائی جارہی ہیں، آپ کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا موبائل دنیا میں تبدیلی کا باعث بنتا نظر آرہا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس کے طریقہ استعمال پر بحث ہمیشہ ہوتی آئی ہے اور ہوتی رہے گی جہاں یہ انسان کے لئے ضروری ہے وہیں اس ضرورت کے بے جا مصرف پر انسانوں کے اندر ہی شکایات بھی منظر عام پر آرہی ہیں۔ کچھ احباب کی رائے میں سوشل میڈیا کے مثبت نتائج سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جس کی جو مرضی وہ سوشل میڈیا پر نشر کر دیتا ہے، سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ کچھ احباب کا یہ کہنا ہے کہ مین سٹریم میڈیا بندوبستی میڈیا ہے جہاں عام آدمی اپنی بات نہیں کہہ سکتا اس کے اظہار کے لئے سوشل میڈیا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ جس پر انسان اپنا کتھارسس تو کر سکتا ہے اور غلط معلومات اور خبروں کا جواب دے سکتا ہے۔اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کے حوالے سے ایک بحث ہے جو جاری ہے جس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جانا چاہیے کہ زندہ معاشروں میں بحث مباحثہ کا جاری رہنا بذات خود ایک اچھی علامت ہے اس سے خرابیوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن ایک بات جس پر زور دینا چاہیے وہ یہ کہ قوائد و ضوابط کے بغیر ہم خرابیوں پر قابو نہیں پا سکتے۔
اگر دیکھا جائے تو اس حوالے سے ملک کے اندر قانون موجود ہے اور ضرورت کے مطابق ان قوانین میں ترامیم اور نئے قوانین بھی بن رہے ہیں جیسا کہ پاکستان میں گزشتہ برسوں میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا قواعد کا باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری کر رکھا ہے۔ حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سوشل میڈیا پرتوہین مذہب، مذہبی منافرت، پاکستان کے وقار، سلامتی، دفاع، وفاقی و صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیز، سیاست دانوں، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف، نظریاتی اساس اور ثقافتی اقدار کے خلاف مواد بلاک کرنے کیلئے متعلقہ کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے۔پی ٹی اے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی یا ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کر دینے کی بات کی گئی ہے۔ بلکہ کی بھی جارہی ہیں۔حکومت کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ اس فیصلے سے آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں لگے گی۔ لیکن نوٹی فکیشن کے ذریعے نافذ کیے جانے والے قواعد کو انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں، ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہرین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز اور عوام کی اکثریت نے قبول نہیں کیا تھا جس پر بھی بحث و مباحثہ جاری ہے۔
اب آتے ہیں سوشل میڈیا کے کچھ دیگر پہلوؤں کی جانب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا نئے دور کا اہم ذریعہ ابلاغ ہے، جس میں پیغامات میں الفاظ کے علاوہ مختلف اشکال کی تصاویر، ویڈیوز اور آواز کے ذریعے احساسات کو بھی منتقل کیا جاتا ہے۔ ایسی پوسٹس انسانی ذہنوں اور رویوں پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں۔ حالیہ عرصے میں دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ ایک نیا مشغلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ کوئی پوسٹ پبلش کرتے وقت اخلاقی طور مختلف ممکنہ طریقوں کو ذہن میں نہیں رکھا جاتا۔ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر دوسروں کا تمسخر اڑانا، طنز کرنا اور غیر اخلاقی زبان کے استعمال کے رجحانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں جو اخلاقی پسماندگی اور غیر مہذب رویوں کو جنم دے رہے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سب سے پہلے خبر دینے یا معلومات شیئر کرنے کا رجحان بڑھنے کے باعث عام صارفین ایسا مواد بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں، جس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے اخباروں میں کسی مجرمانہ اقدام کی خبر شائع کرتے وقت متاثرہ شخص کے نام کا صرف پہلا حرف لکھا جاتا تھا اور اس کی تصویر نہیں چھاپی جاتی تھی۔ اب لیکن بریکنگ نیوز کی دوڑ میں سوشل میڈیا پر نام کے ساتھ ساتھ پورا بائیو ڈیٹا اور بہت سی غیر مصدقہ معلومات بھی شائع کر دی جاتی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ سینئر صحافی اور اینکرز بھی کئی بار جلدی میں کسی خبر پر تبصرہ کر دیتے ہیں، کوئی تصویر یا ویڈیو شیئر کر دیتے ہیں اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ تصویر، ویڈیو یا خبر جعلی تھی۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویوں سے وہ عوامی اعتماد سے محروم ہو جاتے ہیں۔ صحافیوں کو تو ویسے بھی بہت ذمہ دار ہونا چاہیے اور سوشل میڈیا پر خاص طور پر زیادہ ذمہ داری کا مظاہر کرنا چاہیے کیونکہ یہ میڈیا اتنا قابل اعتبار نہیں ہے۔
کسی کی نجی معلومات کا کوئی احترام نہیں رہا، پوچھے بنا کسی کی چیز استعمال کرنے کو ہر معاشرے میں غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے افراد سوشل میڈیا پر دوسروں کی شائع کردہ ویڈیوز اور تصاویر کو استعمال کرتے وقت پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ خواتین اور بچوں پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے جیسے واقعات کی بھی ویڈیوز پوسٹ کر دی جاتی ہیں جبکہ عام سوشل میڈیا صارفین، یہ سوچے سمجھے بنا کہ کسی مظلوم اور اس کے خاندان پر اس بات کا کیا اثر پڑے گا، ایسی تصاویر اور ویڈیوز کو وائرل کر دیتے ہیں۔ سارہ، نور مقدم قتل کیس اور زینب زیادتی کیس سوشل میڈیا پر ایسے ہی سماجی رویوں کی تین بڑی مثالیں ہیں جن کی اشاعت پر پیمرا کو نوٹس لینا پڑا۔
ایک رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا نے عوام کو جہاں کئی معاملات میں بااختیار بنایا ہے، وہیں پر عام لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ اس غلط استعمال میں ایک دوسرے کو گالی دینا، مذہبی یا نسلی بنیادوں پر عوام کو تشدد پر اکسانا، خواتین، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا آن لائن تعاقب کرنا اور انہیں ہراساں کرنا بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں ان سب جرائم کے حوالے سے مؤثر قانون سازی 2016ء میں کی گئی تھی۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مقصد جن جرائم کا تدارک تھا، وہ آج بھی معاشرے میں ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں۔ اس قانون کے ذریعے اب زیادہ تر صرف جائز تنقید کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بعض تربیتی ورکشاپوں میں قوانین کی افادیت کو اپنی جگہ اہم قرار دیا جاتا ہے مگر عوام کو سوشل میڈیا کے درست استعمال کے بارے میں آگاہ کرنے عوام بالخصوص نوجوان طبقہ جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے زیادہ جڑا ہوا ہے، اسے آگہی کی ضرورت پر بہت زور دیا جانا چاہیے کہ عوام کو باشعور بنانے میں حکومت اور حکومتی اداروں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی رویوں اور فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے معاشرے میں سماجی مکالمہ اور تبادلہ خیال بنیادی باتیں ہیں۔ لیکن پاکستان میں عملاً صورت حال کیا ہے، اس بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں شدت پسند طبقے کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نے بات چیت ہونے ہی نہیں دینی۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ جو اس کی اپنی رائے ہے، بس وہی حتمی ہے۔ پھر جو کوئی بحث کرے، اس پر چڑھ دوڑیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے لئے ہر سطح پر شعور اجاگر کیا جائے۔(بشکریہ نئی بات)۔۔