Manzoor Pashteen

پٹھان ہوں، پشتین نہیں۔۔

تحریر: محمد وقاص

میں کوہاٹ کا رہائشی ہوں، میں نے دہشتگردی بھی قریب سے دیکھی ہے اور اسکے خلاف فوجی آپریشن بھی قریب سے دیکھا ہے ، کوہاٹ اور درہ آدم خیل کے درمیان صرف ایک پہاڑ ہے ، یعنی اگر آپ پہاڑ کی چوٹی پہ بیٹھیں تو کوہاٹ اور درہ آدم خیل دونوں شہروں کے درمیان بیٹھے ہوں گے – روڈ کے ذریعے اگر آپ سفر کریں تو پندرہ بیس منٹ میں براستہ کوہاٹ ٹنل آپ درہ آدم خیل پہنچ سکتے ہیں۔

میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب گلے کاٹنے والے درہ آدم خیل میں دن دیہاڑے سڑک پہ کھڑے ہو کر گاڑیوں سے لوگوں اتارا کرتے تھے – پشاور سے کوہاٹ یا کوہاٹ سے آگے دوسرے شہروں جیسے بنوں، کرک، ہنگو، پارہ چنار، سے لیکر پختونخواہ کے آخری شہر ڈیرہ اسماعیل خان تک کا سفر کرنے کے لئے یہی واحد راستہ ہے جو درہ آدم خیل سے گزرتا ہے – یہ ایسے ہی ہے جیسے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو لاہور جانے کے لئے ایک ہی راستہ میسر ہو اور اس راستے پر بھی دہشت گردوں کا قبضہ ہو ۔کوہاٹ سے پشاور تک زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے لیکن ان دنوں شام کے وقت دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر کوہاٹ ٹنل بند کر دی جاتی تھی اور یوں پختونخواہ کے تمام جنوبی اضلاع کا زمینی رابطہ پشاور سے منقطع ہو جاتا تھا – اب چاہے کسی کا مریض ہے یا کوئی بیچارا کورٹ کچہری کے چکر میں پشاور میں دیر کر بیٹھا ہے، آمدورفت صبح طلوع آفتاب کے بعد ہی بحال ہو گی، مریض کا جی چاہے تو مر جائے ورنہ صبح ہونے کا انتظار کرے ۔متبادل راستہ پشاور سے اٹک، راولپنڈی اور پھر کوہاٹ کا تھا جسکے لئے کم از کم سات آٹھ گھنٹے اضافی سفر کرنا پڑتا تھا۔

کوہاٹ اور درہ آدم خیل کے درمیانی پہاڑ کی چوٹی پہ قابض دہشتگرد جب چاہتے تھے راکٹ مار دیتے تھے چاہے کوہاٹ پہ ماریں یا درہ آدم خیل کو نشانہ بنائیں، راکٹ چاہے سویلین آبادی پر گریں یا فوجی تنصیبات پر، اس صورتحال میں کچھ دیر کے لئے جا کر امیجن کریں کہ چوبیس گھنٹوں کا وہ کونسا وقت ہو گا جس میں دونوں اطراف کے رہائشیوں کے لئے کچھ سکون ہو گا – یقیناََ چوبیس گھنٹے، ہفتے کے سات دن میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا جس میں بے یقینی کی کیفیت نہ ہو – درہ آدم خیل کے دوستوں کے تو گھروں پہ بھی دہشت گرد قابض ہوئے تھے اور ان بیچاروں کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔

اب میں کوہاٹ سے پشاور کا سفر اسی ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرتا ہوں، اب میں کبھی کبھار درہ آدم خیل میں گاڑی روک کر گرما گرم کباب کھاتا ہوں اور قہوہ پیتے ہوئے ہوٹل والے چاچا کیساتھ گھنٹہ ایک تسلی سے گپیں بھی مار آتا ہوں۔اب میں درہ آدم خیل میں جس دکان سے سگریٹ خریدتا ہوں اسکے پاس دس پندرہ منٹ رُک کر بال بچوں اور کاروبار کا حال احوال لینے کے علاوہ وہیں کھڑا ہو کر کبھی کبھار چائے بھی پی لیتا ہوں ۔میں نہیں جانتا کہ اس سکون کے پیچھے کتنے وردی والوں نے اپنے سر بطور فٹبال پیش کئیے ہیں ۔میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کتنی بہنوں کے اکلوتے بھائی میرے سکون کی خاطر اپنے گھروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سُونا کر گئے ہیں۔میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اب کی بار کسی باپ کے اکلوتے بیٹے نے چھٹی لیکر بوڑھے باپ کو علاج کی خاطر شہر لیکر جانا تھا لیکن وہ بیٹا پاکستانی جھنڈے میں لپٹا ہوا بوڑھے باپ کے سامنے پہنچا ہو گا تو باپ کی کیا کیفیت ہو گی۔وہ جسکی منگیتر انتظار کر رہی ہو گی اپنے خوابوں کے شہزادے کا، وہ کس طرح پھوٹ کر روئی ہو گی اس جوان کی قبر پہ لہراتے پاکستانی جھنڈے کو دیکھ کر۔۔میں یہ سب باتیں تو نہیں جانتا ،لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میرے اس سُکھ کے پیچھے وردی ہے ۔اور اب جب کہ مجھے سُکھ نصیب ہوا ہے اور پیٹ بھر کے کھانے کو ملا ہے تو میں نعرہ لگا دوں کہ ” یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے ” ؟

نہیں صاحب!!!!  ہرگز ہرگز نہیں

میں پٹھان ہوں لیکن پشتین نہیں

میں پٹھان ہوں بے غیرت ہرگز نہیں –(  محمد وقاص)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں