تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس جس آب و تاب سے پیدااور جس شان سے جوان ہوئی تھی ، پون صدی بعدملکی معاشی ،سماجی اورسیاسی حالات کی طرح نحیف ہوچکی ہے۔
آج دو اگست پی ایف یو جے کا یومِ پیدائش ہے ، اس کاجائے پیدائش کراچی(سندھ) اپنی رونقیں کھوچکا ہے اور اس کاسر( مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش) کٹ چکا ہے، اس کا پیٹ لاہورکی تحریکی تہذیب فوڈ کلچر میں ڈھل کربانجھ ہو چکی ہے اوردھڑکن پشاور( سرحد موجودہ کے پی ) دہشت گرد وں کے اجاڑ نے سے ۔آپریشن تھیٹرمیں ہے، اس کا خوبصورت چہرہ صرف بلوچستان ہے تو وہاں کے حالات ہر روز اک نئی داستان کے آنسو بہاتے ہیں۔
سنہ انیس سو باون میں جب پی ایف یو جے اپنے مکمل آئین کے ساتھ تشکیل پائی تو اس نے اظہارِ رائے جیسے بنیادی انسانی حقوق، شہری آزادی اور اخباری صحافیوں کے پیشہ ورارانہ ، قانونی حقوق کی جدوجہد کو نصب العین بنایا۔پچھلی صدی کی ساتویں دہائی تک اس کی جدوجہد تاریخ میں سنہری حروف سے تعبیر ہے۔مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوا تو اس کے اثرات پی ایف یو جے پر بھی وہی اثرات ہوئے جو سیاسی کلچرپر پڑے اور حقیقی طور پر سنہ انیس سو پچاسی میں غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں آشکار ہوئے درمیانی عرصے میں صحافیوں نے وہ قربانیاں دیں جنہیں خودکوڑے برسانے اور عقوبت خانوں اذیتیں دینے والے بھی تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے۔
اخباری مالکان اور اسٹیبلشمنٹ کے روز اول سے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والی پی ایف یو جے میں دراڑیں ڈالنے میں مسلسل ناکامی کاسامنا کرناپڑا لیکن ملک توڑے جانے کے بعد اس کو راستے ملنے لگے ، برگد کے تنے نیم کی ٹہنیوں کی طرح گرے اور پی ایف یو جے تقسیم ہوگئی۔ اے پی این ایس اور اسٹیبلشمنٹ نے سکھ کا سانس لیا اورصحافیوں کا اتحاد ٹوتتے ہی ان پر چڑھائی کردی ۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ چڑھائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ فیصلے میڈیا مالکان کرتے ہیں اور ان پر عملدرآمد پی ایف یو جے کرتی ہے ، ہاں اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ میڈیا مالکان اور اسٹیبلشمنٹ باہم بھی ایک دوسرے کو گھورتے رہتے ہیں جس میں اگر حالات زیادہ کشیدہ ہوجائیں تو نقصان پھر صحافیوں کا ہی ہوتا ہے اور جب دونوں گھورنے کے بجائے ایک ہی نوالے پر اکٹھے ہوں تو یہ نوالہ صحافیوں ہی کے خون سے تر کرتے ہیں۔
اب صحافی رہنا ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے ، صحافی بنانے کی فیکٹریاں چل رہی ہیں ، جگہ جگہ ان کی ٹریننگ ہورہی جس میں صحافت اور صحافیوں سے دور رہ کر خود کو بڑے صحافی کہلانے اور صحافیوں کی ڈرانے کی تربیت دی جاتی ہے اور پھر ان پر نوازشات بھی اسی خدمت کے حساب سے کی جاتی ہیں ۔
صحافی بے کار ہوگئے ہیں اور صرف وہ ”سینئر صحافی“ کارآمد رہ گئے ہیں جن کی جنم پرچی پر ہی سینئر لکھا ہوا ہے ، جنہیں اس بات کی اچھی طرح سمجھ ہے کہ جو خبر جلد از جلد عوام تک پوری سچائی تک پہنچنی چاہئے ، اسے غائب کس طرح کرنا ہے اور جو کوئی چھاپ دے اسے غائب طرح کروانا ہے۔
پی ایف یو جے کے لئے جو صحافی انٹیلی جنس اداروں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کیلئے مخبریاں کرنے پر انتہائی ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہوتے تھے ، آج وہی سیاسی ،مذہبی لسانی فرقہ وارانہ ، لسانی گروپوں صحافی بڑے فخر سے اپنی مخبریوں پر ناز کرتے ہیں اور پی ایف یو جے کے کوڈ آف کنڈکٹ کی نفی کرتے ہیں۔یہ کوڈ آف کندکٹ انہیں صرف اسی وقت یاد آتا ہے جب ڈبل ایجنٹی میں مار کھاتے ہیں تو اس گرفت کو آزادی اظہار رائے پر حملہ قراردیکر مدد مانگتے ہیں ،یہان پھر صحافی ہی اپنی تنظیم کے نصب العین کا بھرم رکھنے کیلئے جذباتی بلیک میلنگ کا شکار ہوتے اور سڑکوں پر نکلتے ہیں۔
پون صدی میں پی ایف یو جے نے صحافیوں کو ، ان کی سوچ ، منزل اور روایات کو بدلا ہے ، وہ وقت دور نہیں جب پی ایف یو جے کا کوڈ آف کنڈکٹ اور نصب العین بھی بدل دیا جائے گا ۔ یہ صرف ایک انجمن ستائشِ باہمی کا سرکاری ضرورت کے مطابق تیار کیا ہوا ٹی او آرز جیسا آئین بن کر رہ جائے گا۔
آج دو اگست کو پی ایف یو جے کے یومِ پیدائش پر جنہیں تحریک سے وابستگی اور اسلاف کی قربانیوںکا ادراک ہوگا وہ پی ایف یو جے کی پوری وقت کے ساتھ بحالی،صحافت اور صحافیوں کے حقوق پر حملے کرنے والوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند رکھنے کے عزم کی تجدید کریں گے جو آج کے سمجھدار پیدائشی سینئر صحافی ہیں وہ کہیں دور بیٹھے ، کسی پُر تکلف مجلس میں ان قربانیوں کا ڈرنکس اور دھوئیں کے ساتھ مذاق اڑائیں گے جبکہ ’درمیانے‘صحافی خود کو ٹرانسجینڈر انداز میں ثابت کریںگے اور یہ کہتے سنیں جائیں گے کہ یہ جو تقسیم ہوگئی ہے ، اب اتحاد میں نہیں بدل سکتی ،یہ صحافیوں کی وہ کلاس ہے جنہیں اپنے ناچنے کیلئے ڈھول کی تھاپ چاہئے۔(محمد نواز طاہر)۔۔