maholiati masail media lataluq ku hai

ماحولیاتی مسائل، میڈیا لاتعلق کیوں؟؟

تحریر: وقاص علی۔۔

کراچی میں شجرکاری کے ماہرین اورماحولیاتی رضا کاروں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی مسائل سے متعلق آگاہی اور اس کے سدباب کے لیے میڈیا کا کردار مایوس کن ہے۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر عوامی آگاہی انتہائی محدود ہے لیکن جب تک میڈیا مستقل اور تسلسل کے ساتھ آلودگی، درختوں کی کٹائی اور عالمی درجہ حررات جیسے مسائل کو سیاسی خبروں جتنی اہمیت دے کر قومی رجحان پیدا کرنے میں مدد نہیں کرے گا تب تک ملک میں ماحولیاتی مسائل کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی بحران کی شدت میں سالانہ بنیادوں پر اضافے ہوتا رہے گا۔ شجر کاری کے ماہرین اور رضا کاروں نے ماحولیاتی آگاہی سے متعلق سماجی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا (نیوز چینلز) کے کردار پر کُھل کر اظہار خیال کیا۔

گرین ہینڈ ویلفیئر آرگنائزیشن کے سربراہ شہروز سراج نے بتایا کہ مئی 2010 کی ہیٹ ویو کے بعد کراچی میں شجرکاری مہم کا آغاز کیا اور ہم خیال لوگوں کو جمع کرنے اور شجرکاری مہم سے متعلق آگاہی کے لیے فیس بک کا سہارا لیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 8 برس کے مشاہدے کی بنیاد پر پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی یا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی فراہم کرنا میڈیا کی ترحیجات میں ہرگز شامل نہیں ہے۔انہوں نے اپنے استدلال کے حق میں مزید کہا کہ میڈیا کے لیے ماحولیات پر مبنی خبر یا کوئی مہم محض اس وقت توجہ کا مرکز بنتی ہے جب عالمی دن منایا جارہا ہو،اگر سال میں ایک یا دو مرتبہ 45 سکینڈ کا نیوز پیکج اور چند سکینڈ کی خبر نشر کردی جائے تو کیا ہم کہیں گے کہ ماحولیاتی مسائل کی آگاہی کے لیے میڈیا کا کردار نمایاں ہے؟

سوسائٹی فار انوائرمنٹ اینڈ مینگروز پروٹیکشن ویلفیئر ایسوسی ایشن (ایس ای ایم پی) کی سربراہ ڈاکٹر کنول نیازی نے بھی ماحولیات سے متعلق عوامی آگاہی میں ناکامی کی بڑی وجہ میڈیا کو قرار دیا۔ انہوں نے بھی میڈیا کی اس خصوصیت سے متعلق سوال اٹھا جس کا تعلق ’عوامی آگاہی‘ سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر ڈانس کی ویڈیو وائرل ہوجائے تو ایک لڑکی مارننگ شو کا حصہ بن جاتی ہے، بڑے نیوز چینلز پرائم ٹائم میں انٹرٹینمنٹ کی خبریں نشر کرتے ہیں تب ایک سوال جنم لیتا ہے کہ میڈیا کے لیے ماحولیاتی مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟ کیا میڈیا ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران  پر اسی وقت بیدار ہوگا جب سیلاب سے لاکھوں گھر تیع و بالا اور کروڑوں لوگ بے گھر ہوجائیں گے، ہزاروں انسان لقمہ اجل اور کاروبار تباہ جائیں گے؟ آخر میڈیا خبر کی اہمیت کے معاملے میں انسانی جانوں کے ضیاع کو ہی کیوں آلہ پیمائش بناتا ہے؟کراچی میں پھل دار پودے لگانے کے عزم سے مزین ’ٹیم گرین‘ نے گزشتہ ایک برس کے دوران شہر کے مختلف مقامات پر انجیر کے پودے لگائے۔ ٹیم گرین کے بانی فائق سلیم نے بتایا کہ ٹیم گرین نے تجرباتی بنیاد پر شہر قائد میں انجیر کی 6 مختلف اقسام متعارف کروائی ہیں جن میں ترکش براؤن، پرپل جارڈن ، ڈزرٹ کنگ ، یروشلم ، پلماتا اور پیٹر ھنی شامل ہیں اور ان میں متعدد پودے اب پھل دے رہے ہیں۔ فائق بتاتے ہیں کہ وہ ٹیم گرین کے تحت متعدد ایسی مہم کا آغاز کرچکے ہیں جن کے مثبت نتائج ماحولیاتی فوائد میں اضافے کا باعث بن چکے ہیں اور کامیاب منصوبوں کو صرف سوشل میڈیا پر بھی عوامی پذیر آرائی ملی کیونکہ جب جب نیوز چینلز کو منصوبے سے متعلق مطلع کیا اور کوریج کی درخواست کی تو ان کی طرف سے کوئی قابل ساتئش جواب موصول نہیں ہوا۔

جامعہ کراچی کے شعبہ جغرافیہ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر جمیل کاظمی نے ماحولیات کی احساسیت کے بارے میں رائے سازی میں ناکامی کی ذمہ داری حکومت اور میڈیا پر عائد کی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی میڈیا کی توجہ کسی بڑے سانحہ سے مشروط ہے، مثلاً بارشوں کے باعث حالیہ تباہی سے پیدا ہونے والے انسانی بحران پر میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا لیکن اب چند ماہ گزر جانے کے بعد بالکل خاموشی ہے جیسے کوئی المناک واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 80 فیصد میڈیا ماحولیاتی مسائل پر بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا جبکہ میڈیا سمیت پلانرز اور حکومت بھی محدود مدت کے لیے غیرمعمولی فعال ہوجاتی ہے جبکہ یشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بھی میڈیا کے ذریعے عوام کو حالات کی سنجیدگی بتانے میں کوئی قابل ذکر دلچسپی نہیں رکھتے۔جمیل کاظمی نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پاکستان میں ماحولیات ایک خشک موضوع ہے اور لوگ اس بارے میں جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ انہوں نے بتایا کہ لوگ نیشنل جیوگرافی اور ڈسکوری چینلز کی پیش کردہ ڈاکیومنٹری دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں اور ہمارے ملک میں بھی ان اداروں کی بنائی گئی فلمیں پسند کی جاتی رہی ہیں۔ جمیل کاظمی نے بتایا کہ پاکستان میں ماحولیات پر ڈاکیومیٹری بنانے کا رحجان بہت کم ہے اور چند ایک ڈاکیومٹیری بنائی گئی لیکن اس میں معیار اور مواد دونوں پر کوئی پیشہ ورانہ توجہ نہیں ہوتی۔

جامعہ کراچی میں شعبہ ماحولیات سے نائب پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ماہر ڈاکٹر ظفر اقبال شمس  نے بھی میڈیا کے مجموعی کردار پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی ایک ذمہ داری معلومات فراہم کرنا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مون سون سے پہلے میڈیا پر مون سون کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات پر بات کیوں نہیں کی جا سکتی؟ کیا وجہ ہے کہ میڈیا پر سیر حاصل گفتگو نہیں ہوتی کہ سیلاب آنے یا موسمی تغیر کی وجوہات کیا ہیں؟ سانحات کے بعد بھی میڈیا کی سیلاب، بارشیں، زلرلے وغیرہ سے متعلق رپورٹنگ بھی یکطرفہ ہے یعنی واقعات کے اسباب پر بات نہیں کی جاتی۔(بشکریہ ایکسپریس)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں