تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،آپ نے ٹرینوں، بسوں میں سفر کیا ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ملک بھر کی دیواریں مختلف اقسام کے اشتہارات سے بھری ہوئی نظر آتی ہیں۔۔ صادق آباد کے پاس ایک دیوار پر ہمیں کسی حکیم صاحب کا دیوار پر بڑا سا اشتہار لکھا نظر آیا، جس میں انہوں نے خود ”ماہر امراض خصم“ لکھا تھا۔۔ یہ اشتہار پڑھ کر ہم چونک گئے کیوں کہ اس ٹائپ کا ”ماہر“ کبھی نظروں سے گزرا نہیں تھا۔۔ بہرحال۔۔گزشتہ دنوں ایک خبر اخبار میں پڑھی، بھارتی عدالت کا دلچسپ فیصلہ سامنے آیا ہے۔۔بھارتی ریاست کیرالہ کی ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی کا دوسری عورتوں سے موازنہ کرنا ذہنی اذیت کے مترادف ہے۔کیرالہ ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو اس کے ظاہری حلیے پر طعنے دیتا ہے، یہ کہتا ہے کہ اگر بیوی اس کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہی یا اس کا موازنہ کسی اور سے کرتا ہے تو یہ ایک طرح کا ذہنی ظلم ہے۔
میری بیوی لڑکیوں کے اسکول میں پڑھاتی تھی میں روز اسے اسکول چھوڑنے اور لینے جاتا تھا، اسکول کے گیٹ پر پہنچ کر میں گاڑی سے اترتا اور اس کی طرف کا دروازہ کھول دیتا تب وہ نیچے اترتی۔۔۔ میرا یہ طریقہ لڑکیوں کے اسکول میں موضوع بحث بن چکا تھا، اسکول کی استانیاں میری بیگم پر رشک کرتیں اور اسے چھیڑتیں کہ کیا نصیب پایا ہے، کیا رومانس ہے، کاش کہ ہمارے شوہروں کو بھی یہ توفیق ملتی، بلکہ طالبات بھی ایسی باتیں کرتی، لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ رومانس وومانس کچھ نہیں تھا بلکہ گاڑی کا دروازہ خراب تھاجو صرف باہر سے ہی کھلتا تھا۔مختصر یہ کہ اب میں تین استانیوں کا شوہر ہوں، دروازہ اب تک ویسا ہی ہے۔ یہ دروازہ میرے لئے خیر کا دروازہ ثابت ہوا۔۔۔یہ تو تھا ایک خراب کار والے کی کتاب ”قسمت اچھی کار خراب“ سے ایک اقتباس۔۔ایک لمحہ کے لئے سوچیں اگر عورتیں گنجی ہوجاتیں، کتنی بدصورت نظر آتیں؟؟ اگر عورتوں کی مونچھیں نکل آئیں تب بھی وہ دیکھنے لائق نہیں رہتیں؟ اگر عورتوں کے سکس پیک ایبس نکل آئیں،تب بھی انہیں کوئی نہیں سراہتا، کوئی تعریف نہیں کرتا۔۔پھر خواتین کی جانب سے دعوی یہ سامنے آتا ہے کہ عورتیں خوب صورت ہوتی ہیں۔۔اب بات کرتے ہیں مردوں کی۔۔ یعنی لڑکوں کی۔۔اگر لڑکے کلین شیو ہوں تو خوب صورت لگتے ہیں، داڑھی رکھیں پھر بھی جچتے ہیں، گنجے ہوجائیں تب بھی برے نہیں لگتے۔بڑے بال رکھیں، پھر بھی خوبصورت لگتے ہیں،درمیانے بال ہیں، پھر بھی خوبصورت نظر آتے ہیں۔اگر لڑکوں کو سکس پیک ایبس آ جائیں تو خوبصورت۔۔اور اگر چھریرا بدن ہوتو پھر بھی اسمارٹ۔۔یعنی عورت کا حسن بس ”دکھاوا“ ہے، بیوٹی پارلرز اور میک اپ کا کمال ہے، مردحضرات کو اللہ نے قدرتی حسن سے نوازا ہوا ہے۔انہیں کسی بیوٹی پارلر کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ مرد کی خوبصورتی،ایک ابدی سچائی ہے جو ہر حال میں چھائی رہتی ہے۔باباجی فرماتے ہیں۔۔سب لڑکیاں دل کی بُری نہیں ہوتیں،کچھ کا دماغ بھی خراب ہوتا ہے۔۔کھانے کی میز پر خاوند نے اپنی اہلیہ سے کہا، تم اگر انڈیا میں ہوتی تو وہاں کے لوگ تمہاری پوجا کرتے۔۔ بیوی نے خوش ہوکر کہا، سچی، کیا میں حُسن کی دیوی لگتی ہوں۔۔ خاوند نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا، نہیں یار،گائے جیسی لگتی ہو۔۔بہت ہی پرانی بات ہے، شادی شدہ آدمی سے کسی نے پوچھا کہ آپ شادی سے پہلے کیا کرتے تھے۔۔ٹھنڈا سانس لے کر مسکین نے کہا کہ۔۔جو جی چاہتا تھا۔۔ویسے شادی بیاہ کے معاملات میں جہاں خوب صورتی کو معیار بنایاجاتا ہے وہیں لڑکی کا قد کاٹھ بھی دیکھا جاتاہے۔
ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا۔۔اس لڑکی کے اصرار پر تم نے شراب نوشی،سگریٹ نوشی،شطرنج اور آوارہ گردی وغیرہ ترک کر دی۔۔ دوست نے جواب دیا۔۔بے شک۔۔پہلے دوست نے پھر سوال کیا۔۔ تو پھر تم نے اس سے شادی کیوں نہیں کی؟؟ دوسرا دوست کہنے لگا۔۔میں نے سوچا، اتنی مشکل سے تو زندگی سدھری ہے تو اب اسے دوبارہ جہنم بنانے کی ضرورت کیا ہے۔۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ۔۔۔شادی چھوٹے قد والی سے ہو یا بڑے قد والی سے۔۔ ماشااللہ دونوں کی زبان تو لمبی ہوتی ہی ہے۔۔ ہمارے پیارے دوست کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔۔ منگنی کے بعد جیسے ان کی شادی پر مکڑی کا جالا سے پڑگیا ہے۔۔ منگنی شدہ لوگوں کا حال اس گھر جیسا ہے جہاں شدید سرد موسم کے لئے گیزر تو لگاہوتا ہے لیکن اس علاقے میں پورا سال گیس نہیں آتی۔۔۔جدید ریسرچ بتاتی ہے کہ خوبصورتی کی اہمیت نہیں ہوتی، خوب صورت خواتین کے شوہر جلد مر جاتے ہیں، لیکن باباجی کا کہنا ہے۔۔ بدصورت خواتین کے شوہر روز مرتے ہیں۔۔۔مصری دانشور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شادی چھوٹے قد کی عورت سے کرنی چاہیے کیونکہ مصیبت جتنی چھوٹی ہو اتنی ہی بہتر ہے۔سندھی کہاوت ہے کہ خوبصورت لڑکی پیدا ہوتے ہی آدھی شادی شدہ ہوتی ہے۔ باباجی کا تو یہ کہنا ہے کہ۔۔صرف پانچ فیصد خواتین خوب صورت ہوتی ہیں باقی اپنی محنت سے بنتی ہیں۔۔میک اپ اور خواتین کا ساتھ چولی دامن کا ہوکررہ گیا ہے۔۔اور آسان اس طرح سمجھا دیتے ہیں کہ میک اپ کی مثال گاڑی میں پٹرول کی سی ہے، پٹرول ہوگا تو گاڑی چلے گی، نہیں ہوگا تو نہیں چلے گی۔۔ویسے ایک لمحہ کے لئے سوچیں اگر۔۔ میک اپ ختم ہوگیا تو لڑکیوں کا پتہ کیسے چلے گا کہ کون ہے۔ پہچان کیسے ہوگی؟؟ ویسے دیکھا جائے تو یہی وہ اوزار ہیں جن سے زمینی حقیقت چھپائی جاتی ہے۔۔آپ کبھی نوٹ کیجئے گا۔۔ کسی دعوت میں ایک حسین عورت کے گرد چند مرد جمع ہو جائیں تو وہ”پارٹی کی جان“کہلاتی ہے، اور اسی دعوت میں ایک خوبرو مرد کے گرد چند خواتین موجود ہوں تو اسے”خبیث بڈھا فلرٹ ’“کہا جاتا ہے۔۔یہ کہاں کی اخلاقیات ہیں کہ اپنے پیچھے آنے والی خاتون کے لئے مرد دروازہ کھول کر نہ رکھے تو بدتہذیب ہے اور تھام کر رکھے تو ”ٹھرکی“۔۔کہتے ہیں کہ ایک کامیاب مرد وہ ہے جو اپنی بیوی کے خرچ سے زیادہ کماتا ہو اور ایک کامیاب عورت وہ ہے جو ایسا خاوند تلاش کر لے۔۔باباجی کاکہنا ہے کہ۔۔عورت کو خوش کرنا ہے تو اسے پیار دیا جائے،جینے مرنے کی قسمیں کھائی جائیں،شاپنگ کرائی جائے،باہر کھانا کھلایا جائے اور۔۔مرد کو خوش ہونے کے لیے پاکستان کا کرکٹ میچ جیتنا بہت ضروری ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔باباجی کہتے ہیں، روزانہ نہار منہ صبح کریلے کا ایک گلاس جوس پینے سے نہ صرف وزن کم ہوجاتا ہے بلکہ جینے کی خواہش بھی ختم ہوجاتی ہے۔۔خوش رہیں ا ور خوشیاں بانٹیں۔۔