crime free city 2

مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے۔۔

تحریر: جاوید چودھری۔۔

وہ بیس لوگ تھے اور ان سب کاموقف ایک تھا ’’کورونا فراڈ ہے‘ یہ امریکی سازش ہے اور یہودو نصاریٰ مل کر مسلم دنیا کو تباہ کر رہے ہیں‘‘ میں ان کی باتیں سن کر حیران ہو رہا تھا‘ان کی زبان میں ماہرین سے زیادہ یقین تھا‘ میں نے ان ماہرین کا بیک گرائونڈ اور تعلیم پوچھنا شروع کر دی‘ پتا چلا الحمد للہ ان میں سے آدھے کالج تک نہیں پہنچ سکے جب کہ باقی لوگ پڑھے لکھے تھے۔ان میں دو ڈاکٹرز‘ تین انجینئرز‘ دو عالم دین اور تین پروفیسر تھے تاہم پڑھے لکھے اور ان پڑھ ماہرین کے خیالات میں کوئی فرق نہیں تھا‘ دونوں ’’سیم پیج‘‘ پر تھے‘ میں خبطی اور حجتی انسان ہوں لہٰذا میں نے ان سے مختلف سوال کرنا شروع کر دیے‘ میں نے پوچھا ’’دنیا کے 123 ملک کورونا کو عالمی وبا تسلیم کر رہے ہیں‘ کیا یہ سب پاگل ہیں‘‘ وہ فوراً بولے ’’یہ اس سازش کا حصہ ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’پوری دنیا بند ہو گئی۔

تاریخ میں پہلی بار عالمی معاشی پہیہ رک گیا‘ دنیا کی دس بڑی معیشتوں کا بیڑا غرق ہو گیا‘ سول ایوی ایشن‘ ٹورازم‘ ہوٹل ‘ ریستوران اور ٹرانسپورٹ کی انڈسٹریز کریش ہو گئیں‘ دنیا کی تمام اسٹاک ایکس چینجز تباہ ہو گئیں‘ امریکا عوام کو اڑھائی کھرب ڈالر کا پیکیج دینے پر مجبور ہو گیا‘ یورپ نے اپنی سرحدیں بند کر دیں اور چین کے 48 لاکھ کارخانے بند ہو گئے لیکن آپ کہہ رہے ہیں یہ سازش ہے‘ یہ کیا سازش ہے جس میں سازش کرنے والوں نے اپنا ہی بیڑا غرق کر لیا‘‘۔

ان سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ مسکرائے اور میری طرف دیکھ کر بولے ’’آپ بھی مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے میں بہہ رہے ہیں‘ یہ سارے فگر غلط ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب دنیا میں پہلی مرتبہ فرسٹ ورلڈ تیسری دنیا سے زیادہ متاثر ہوئی ‘ اسلامی ملکوں کو صرف ایک فیصد نقصان ہوا جب کہ ننانوے فیصد نقصان امیر ملکوں نے اٹھایا لہٰذا یہ اگر سازش تھی تو ان ملکوں کے خلاف تھی‘ یہ ملک اگر ہمارے خلاف سازش کرتے تو یہ سب مل کر اسلامی ملکوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے اور ہم تباہ ہو جاتے‘ دوسرا دنیا جہاں کے ڈاکٹرز‘ طبی ماہرین اور سائنس دان کورونا کو وبا قرار دے رہے ہیں‘ صرف ہم نہیں مان رہے اور ہم کون ہیں؟

ہم وہ ہیں جو شلوار میں ناڑا ڈالنے کا کوئی باعزت طریقہ ایجاد نہیں کر سکے‘ ہم آج بھی پنسل اور ٹوتھ برش سے ناڑا ڈالتے ہیں‘ ہم لاہور سے کراچی پہنچ کر پردیسی ہو جاتے ہیں لیکن کائنات کا سارا خفیہ علم صرف ہم پر اترتا ہے‘ یہ کیا بکواس ہے‘‘ وہ سب ہنسے اور یک آواز ہو کر بولے ’’آپ کو نہیں پتا یورپ اور امریکا کی فارما سوٹیکل کمپنیاں ہم سب کو خوف زدہ کر کے کھربوں ڈالر کی ویکسین بیچنا چاہ رہی ہیں‘‘ میں نے شدید ٹینشن میں سر ہلایا اور کہا ’’یہ ساری کمپنیاں اگر مل کر سو سال بھی ویکسین بیچ لیں تو بھی یہ صرف ٹورازم انڈسٹری کے نقصان کے برابر رقم نہیں کما سکیں گی۔

دنیا میں صرف سیاحتی انڈسٹری کو 2700 بلین ڈالرز نقصان ہوا جب کہ تین ہزار ارب ڈالرز کی سول ایوی ایشن انڈسٹری بھی بیٹھ گئی ہے‘ آپ اس سے باقی انڈسٹریز کا اندازہ کر لیجیے‘ آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں جب بھی کورونا کی ویکسین آئے گی یہ پوری دنیا کو فری ملے گی‘ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) فری ڈیلیوری کی ذمے داری لے گا‘‘ وہ ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر بیک وقت بولے ’’آپ میڈیا کے لوگ اس بدبوبدار سازش کا حصہ ہیں‘ آپ لوگ پوری دنیا کو پاگل بنا رہے ہیں‘‘۔

میں غصے میں آ گیا اور میں نے چلا کر کہا ’’دنیا میں اس وقت بھی 64 لاکھ مریض ہیں‘ چار لاکھ لوگ مر چکے ہیں‘ طبی عملے کے لوگ تک مر رہے ہیں اور دنیا بھر کے صدور‘ وزراء اعظم اور وزراء بھی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں‘ آپ کو مزید کیا ثبوت چاہیے؟ آپ جب تک خود بیمار نہیں ہوں گے‘ آپ جب تک خود نہیں مریں گے کیا آپ کو اس وقت تک یقین نہیں آئے گا؟‘‘ میری بات سن کر وہ سب گرم ہو گئے‘ مجھے محسوس ہوا میں نے اگر مزید ایک آدھ فقرہ بول دیا تو یہ مجھے پھینٹا لگا دیں گے‘ میں نے خود کو ٹٹول کر دیکھا‘ میرے اندر کسی کونے میں ارطغرل غازی نہیں تھالہٰذا میں چپ چاپ اٹھا اور وہاں سے نکل آیا۔

میں انکار کے اس حمام کا واحد مسافر نہیں ہوں‘ مجھے یقین ہے آپ بھی روز اس عمل سے گزرتے ہوں گے‘ پوری دنیا چھ ماہ سے وبا کا مقابلہ کر رہی ہے جب کہ ہم سرے سے اسے تسلیم ہی نہیں کر رہے چناں چہ ہم دن بدن اس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ آپ عوام کو چھوڑیے‘ ہم من حیث القوم جہالت کی بیماری کا شکار ہیں‘آپ جہالت کا اندازہ کیجیے‘ مجھے چند دن قبل کسی صاحب نے فون کیا‘ ان کا دعویٰ تھا وہ پی آئی اے کی اسپیشل فلائیٹ سے استنبول سے اسلام آباد آئے ہیں۔

پی آئی اے نے جہاز میں ساڑھے پانچ سو مسافر ٹھونس دیے تھے اور یہ ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے‘ میں نے پی آئی اے سے رابطہ کیا‘ پتا چلا پاکستان کے پاس کوئی ایسا جہاز نہیں جس میں ساڑھے پانچ سو مسافر آ سکتے ہوں‘ ائیر لائین نے مجھے مسافروں کی فہرست بھی بھجوا دی‘ جہاز میں عملے سمیت 171 لوگ اسلام آباد آئے تھے‘ میں نے ان صاحب سے رابطہ کیا‘ وہ پابند صوم وصلوٰۃ بھی تھے‘ باریش بھی تھے اور روزے سے بھی تھے لیکن وہ میرے گلے پڑ گئے‘ ان کا کہنا تھا وہ سچ فرما رہے ہیں اور یہ ساری فہرست جعلی ہے۔

ہم عوام اس نوعیت کے پاگل پن کا شکار ہیں‘ ہم فرضی باتوں کو خود بھی حقیقت مان لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسے حقیقت ماننے پر مجبور کرتے ہیں‘ ہم اس خبط میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ ایمان بھی صرف ہمارا خالص اور مکمل ہے باقی سارے مسلمان نعوذ باللہ کافر ہیں چناں چہ آپ ہم عوام کو چھوڑ دیجیے‘ اصل ایشو حکومت ہے‘ یہ ہم سے بھی بڑی دانش ور ہے‘ یہ عقل میں صدر ٹرمپ کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے ہماری حکومت پچھلے چار ماہ سے نانی کا نکاح کر رہی ہے اور پھر اس کے خلع کا کیس لڑ رہی ہے۔

دنیا نے جب فیصلہ کیا تھا لاک ڈائون کے علاوہ کورونا کا کوئی علاج نہیں تو ہم نے ایک ڈھیلا ڈھالاسا لاک ڈائون کر دیا‘ سڑکوں پر ٹریفک بھی چل رہی تھی‘ لوگ پارکوں میں جھولے بھی لے رہے تھے اور بچوں کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر شہر کا چکر بھی لگا رہے تھے‘ ہمارے وزیراعظم نے اس دن سے فرمانا شروع کر دیا ہمارے لوگ بھوک سے مر جائیں گے‘ یہ درست فرما رہے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے جب کارخانے بند ہوں‘ ٹرانسپورٹ‘ مارکیٹیں‘ تعمیرات اور دفتر لاک ہوں تو مزدور باہر نکل کر کیا کرے گا اور ہم اگر کارخانے چلا بھی لیں تو ہم اپنی مصنوعات کہاں بیچیں گے؟

دنیا تو بند ہے‘ بحری جہاز چل رہے ہیں اور نہ ہوائی جہاز چناں چہ کیا ہم مال بنا کر کراچی میں ڈھیر لگائیں گے اور ہم اگر یہ ڈھیر لگا بھی لیں تو کیا کارخانے ایک آدھ ماہ بعد مزید پیداوار کے قابل رہیں گے اور اگر کارخانے بند ہو گئے تو مزدور کیا کرے گا! کیا یہ بھوک سے نہیں مرے گا؟ اور کیا یہ بات درست نہیں مزدور دو ماہ بعد بھوک سے مرے یا نہ مرے لیکن یہ کورونا سے ضرور مر جائے گا کیوں کہ یہ بے چارہ کسی وینٹی لیٹر تک نہیں پہنچ سکے گا چناں چہ ہمیں ماننا ہوگا اللہ تعالیٰ کے کرم سے پہلی مرتبہ عوام کو ویسے حکمران نصیب ہوئے ہیں جیسے ہم عوام ہیں۔

ہم اور حکومت دونوں میں کوئی فرق نہیں‘ ہم اگر کنفیوز ہیں تو حکومت موسٹ کنفیوزڈ ہے‘ ہم اگر حقائق کو حقیقت نہیں مانتے تو ہماری حکومت ہم سے بھی چند قدم آگے نکل جاتی ہے‘ یہ حقیقت کے وجود ہی سے منکر ہو جاتی ہے اور آپ آخر میں ہرڈ امیونٹی کا نتیجہ بھی دیکھ لیجیے گا‘ یہ تجربہ صرف سویڈن نے کیا تھا اور وہاں تباہی آ گئی تھی لیکن ہم نے جانتے بوجھتے ملک میں اسلامی ہرڈ امیونٹی متعارف کرا  دی‘ سوال یہ ہے اگر یہ بھی ناکام ہو گئی تو ہم پھر کیا کریں گے؟ میرا خیال ہے ہمارے پاس پھر دو ہی آپشن بچ جائیں گے‘ ہم شمالی کوریا کی طرح کورونا کے مریضوں کو گولی مار دیں یا پھر ہم صومالیہ بن جائیں‘ صومالیہ میں کورونا کا کوئی نیا مریض نہیں‘کیوں؟

کیوں کہ حکومت ٹیسٹ ہی نہیں کر رہی چناں چہ نہ ہو گا ٹیسٹ اور نہ ہو گا کورونا‘ ہمارے پاس بھی گولی یا پھر ٹیسٹ پر پابندی کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا اور مجھے یقین ہے ہم جس قسم کی عوام ہیں اور ہم نے اپنے اوپر جیسی حکومت نازل فرما لی ہے‘ ہم یہ بھی کر گزریں گے‘ ہم کورونا کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی وقت ٹیسٹ بند کر دیں گے اور یوں ہم کورونا فری ہو جائیں گے‘ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں