تحریر: مناظر علی۔۔
بعض دفعہ ہم کسی بات کو عام سی بات سمجھ کر توجہ نہیں دیتے مگر درحقیقت وہ بات عام نہیں بلکہ بہت خاص ہوتی ہے اور ہماری زندگیوں پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں،ہم یہاں اگر اپنے رویوں کی ہی بات کرلیں تو بظاہر لوگ اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتے مگر درحقیقت یہ رویے ہی معاشرے کے بگاڑ یا سدھار کا سبب بن جاتے ہیں۔
یہ موضوع کوئی نیا نہیں مگر مجھے اس موضوع پر کچھ لکھنے کی تحریک پیداکرنے کا سبب کینیڈامیں مقیم پاکستانی سینئرصحافی بدرمنیر چوہدری ہیں،وہ ہرسال پاکستان واپس آتے ہیں اور ہردلعزیزہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان میں آتے ہی مختلف تقریبات میں اظہارخیال کیلئے بلایاجاتاہے،اس بار اُن کے اعزازمیں سجنے والی مختلف محافل میں سے ایک محفل مولانا ظفرعلی ٹرسٹ لاہور میں ہوئی تو میں بھی ایک مشاعرے سے فارغ ہوکر وہاں پہنچ گیا۔
تقریب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی،میں جلدی جلدی ہال میں داخل ہوااور بدرمنیرچوہدری کی گفتگو سننے لگا،نظریں ان کی نظروں سے ملیں تو انہوں نے مسکراہٹ سے ہلکاسا سر ہلایاجس کامطلب میں نے کچھ یوں لیاکہ چلو دیر سے ہی سہی تم آتوگئے،اسی دوران وہ مجموعی رویوں پر بات کرنے لگے،انہوں نے بتایاکہ ہم اوورسیزپاکستانیز وطن واپس اس لیے آتے ہیں کہ اپنی مٹی کو ہاتھ لگاسکیں،جذبہ حب الوطنی انہیں اپنے وطن حاضری پرمجبورکرتاہےمگر ایک چیز کو دیکھ کر ہم سوچ میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟۔۔۔ایئرپورٹ پراترتےہی ہمیں ایک تناؤ کی سی صورتحال کاسامناہوتاہے،ایک طویل اورتھکادینےوالے سفر کے بعد ہم اپنے پاکستانی بھائیوں،ائیرپورٹ عملے اور شہریوں سے مسکراہٹ کی توقع کررہے ہوتے ہیں مگر ایک عجیب سی ٹینشن دیکھنے کو ملتی ہے،زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر غصے کااظہارکرتے ہیں ،تاثر یہ ملتاہے کہ وہ دیکھنے والے سے نفرت کرتے ہیں،چہرے پر مسکراہٹ کی بجائے ماتھے پر شکن کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
اگر ہم بطورمسلمان بھی دیکھیں تو ہمیں مذہب اخلاق کا درس دیتاہے اور مسلمان کو مسلمان کا بھائی کہا گیاہے ، پھر جب اتنا گہرا رشتہ ہے تو یوں تناؤ،نفرت اور غصے کااظہارکس چیز کی طرف اشارہ کرتاہے؟ہم کیوں اس طرح کے رویے کو لے کر اپنی زندگیوں کو مزیدمشکل میں ڈال رہے ہیں؟۔
بدر منیرچوہدری نے غیرملکیوں اور پاکستانی عوام کے رویوں کاتقابلی جائزہ بھی لیا،انہوں نے بتایاکہ جب انگریز آپ کو کسی بات سے منع بھی کررہاہو،کوئی ملازم،کوئی افسرکسی بات سے انکار بھی کررہاہو تو وہ مسکراہٹ کیساتھ معذرت کرتاہے۔۔یوں انکار،کام نہ ہونے اورتکلیف بھی ذہن پر گراں نہیں گزرتی،وہاں ہر شخص دوسرے کےحقوق کاخیال رکھتاہےمگر یہاں تو گلی میں گاڑٰی کھڑی کرلیں تو دو چار لوگ غصے سے نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ منع کردیتے ہیں کہ ہمارے گھر کی دیوار کیساتھ گاڑی پارک نہ کریں۔ہم یہاں ابھی تک ایک دوسرے کیساتھ برادرانہ رہنا تو درکنار برداشت کرنا بھی نہیں سیکھ پائے۔۔۔
چوہدری صاحب کی باتوں نے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑے،اگلے دن لاہور پریس کلب میں بھی ان کے اعزازمیں ایک تقریب تھی،جانے کااتفاق ہوا تو انہوں نے اس محفل میں بھی وہیں باتیں دہرائیں اور اس بات پر زور دیا کہ ہمٰیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہے،مثبت سوچ پروان چڑھانے اور غصے کی بجائے برداشت اور مسکراہٹ کوفروغ دینے کی ضرورت ہے،،اسی دوران گلوکارجواد احمد بطورمہمان محفل میں آئے تو ان کی گفتگو کے دوران ایک صاحب نے انتہائی چبھتاہوا سوال کیا جو کہ محفل کے موضوع سے بالکل ہٹ کر تھاجس پر ماحول قدرے بدمزہ بھی ہوا۔
سیکرٹری پریس کلب زاہد چوہدری اور بدرمنیر کی باتوں نے محفل کو پھر اسی خوبصورت ٹریک پر چڑھادیا مگر مجھے پھر وہی بات یاد آگئی کہ ہم نے کیوں ایسے رویے اپنا رکھے ہیں؟ہم کیوں نہیں دوسروں کو برداشت کرنا چاہتے ہیں؟ہم کیوں نہیں سوال کو اس اندازمیں کرتے کہ اگلے بندے کو گراں نہ گزرے؟ہم نے کیوں ہروقت پریشانی کوخود پر طاری کررکھاہے اور ہم کیوں مسکرانا بھول گئے ہیں؟اگر ہم اخلاقیات کاخیال کریں، برداشت کرنا سیکھیں،اپنے الفاظ کو تیز دھار بنانے کی بجائے انہیں پھولوں کی طرح خوشبوداراورنرم کرلیں اور چہرے پر تناؤ کی کیفیت ختم کرکے مسکراہٹ کےپھول بکھیرنا شروع کردیں تو پھر دنیا ہماری تعریف بھی ایسے ہی کرے گی جیسے آج ہم بیرون ملک جا کر ان کے رویوں سے متاثرہوکر یہاں مثالیں دیتے ہیں۔۔یاد رکھیں کہ یہ رویے،یہ اخلاق،یہ مسکرانا ہمارے دین نے ہمیں کئی سوسال پہلے ہی بتا دیا تھامگر صورتحال یہ ہے کہ۔۔وہ معزز ہوئے زمانے میں مسلماں ہوکر۔۔۔اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر۔۔۔۔کچھ نہیں کرسکتے تو مسکرانا ہی شروع کردیں شایدنفرتیں ختم کرنے میں کچھ مدد ملے سکے۔(بشکریہ پاکستان)