تحریر: خرم شہزاد
جنرل مشرف صاحب نے میڈیا کو آزادی کیا دی میڈیا تو بے لگام ہی ہوتا چلا گیا۔ کہاں پہلے کسی بھی چینل کا ایک مین دفتر ہوتا تھا اور صوبائی دارلحکومتوںمیں بیورو آفس ہوتے ۔ بہت ہوا تو کہیں ایک آدھ اور دفتر بھی بن گیا لیکن زیادہ تر کام بیورو آفس سنبھالتے اور باقی تمام شہر رپورٹروں کے حوالے ہوتے تھے۔ اخبارات کا بھی یہی حال تھا کہ صوبائی دارلحکومت میں چھپتا اور پھر پورے صوبے میں تقسیم کردیا جاتا لیکن پھر وقت آیا کہ چینل والوں نے ہر صوبے میں دفتر بنانے شروع کر دئیے اور اخبار والے ہر شہر سے اخبار نکالنے لگے۔ اس خوبصورت تصویر سے ہم فورا ہی موجودہ حالات کا رخ کرتے ہیں کہ کچھ ٹی وی چینل ہی بند ہو چکے ہیں جبکہ باقی رہ جانے والے چینلز بھی سخت مسائل کا شکار ہیں۔ بیورو آفس تک بند ہو رہے ہیں اور اب ایک بار پھر ٹی وی چینلز اپنے ایک آدھ دفتر تک محدود ہونے جا رہے ہیں۔ اخبارات بھی کچھ ایسے ہی حالات کا شکار ہیں کہ کل تک جو بڑے فخر اور خوشی سے آپ کے شہر کا اخبار، آپ کے مسائل کا اصل ترجمان کے نعرے لگاتے تھے ،وہ سارے اب غائب ہوتے جا رہے ہیں۔اس ساری صورت حال کو میڈیا بحران کا نام دیا جا رہے اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ میڈیا کو پچھلے تین چار سال کی ادائیگیاں نہیں ہوئیں اس لیے اب ورکرز کو نکالا جا رہا ہے اور اپنے خرچے کم کئے جا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ادائیگیاں تو تین چار سال پرانی ہیں لیکن ورکرز کو نکالنے کا سلسلہ اب کیوں شروع ہوا ہے ۔۔۔ ؟؟ میڈیا بحران کے باوجود بہت سے اینکرز اب بھی کیسے اور کیوں لاکھوں کا پیکج لے رہے ہیں۔ ۔۔؟؟آپ میڈیا بحران پر سوچیں اور میں اپنے حلقے کی سیاست کے دکھ روتا ہوں۔
پاکستان میں پچھلے سال ہونے والے الیکشن پہلے منعقد کئے جانے والے بہت سے الیکشنوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ امید واروں کے وہی وعدے اور الیکشن سے کچھ پہلے اپنے علاقے میں نظر آنا، ایک ایک گھر کا دروازہ بجا کر وعدے کرنا اور ووٹ مانگنا۔ تحریک انصاف کے دھرنوں کی وجہ سے عوام میں تھوڑی سی جرات اور سمجھ پیدا ہوئی کہ لوگوں نے کئی مقامات پر اپنے امیدواروں سے سوالات بھی کئے۔ اسی طرح ان الیکشنوں کے ساتھ ہی میڈیا متحرک ہوا اور مشہور امید واروں کے حلقوں میں جا کر پروگرام کئے جانے لگے۔ کہیں کسی کی کچی گلیاں اور بند نالیاں دکھائی جاتیں اور کہیں کسی کے حلقے میں صرف لوگوں سے ان کی رائے پوچھ کر ہی پروگرام ختم کر دیا جاتا۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو الیکشن کے دنوں میں لے جانا چاہتا ہوں اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے حلقے کے امید واروں کے بارے کس قدر با خبر تھے۔ ہمارے میڈیا کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت باخبر ہے اور ان کی ہر خبر پر نظر ہے۔ ہر گھنٹے میں دو سے تین بریکنگ نیوز دینا اس کی عادت ہے جس سے وہ یہ تاثر قائم رکھتے ہیں کہ کہیں بھی کچھ بھی ہو رہا ہو، ہمارا چینل سب سے پہلے اور سب کچھ بنا کسی لگی لپٹی رکھے اپنے ناظرین تک پہنچاتا ہے، ایسے میڈیا کے ہوتے ہوئے میں اپنے دروازے پر آئے امید وار کے بارے سوچتا ہی رہ گیا کہ جناب محترم پانچ سال اسمبلی میں پورے کر کے آئے ہیں ان کی سیاسی زندگی اور سفر کے بارے مجھے کتنا معلوم ہے۔ حلقے میں ہونے والے جلسے اور کارنر میٹنگ تو الیکشن کے ساتھ ہی اپنی موت مرجاتے ہیں۔ بعد میں بہت ہوا تو کوئی بیان ، شعلہ فشانی جو میڈیا کے کیمرے اور مائیک کے سامنے ہو گی نظر آجائے گی یا پھر اخباری بیانات سے ہی واسطہ رہے گا۔ چوبیس گھنٹے چلنے والے میڈیا چینلز نے کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ کسی بھی اسمبلی میں کب کون سا بل پیش کیا گیا ہے ، ایک ماہ یا سال میں کتنے بل پیش کئے گئے۔ کتنے ارکان اسمبلی نے بحث میں حصہ لیا، کس دلیل سے حمایت کی اور کس وجہ سے مخالفت میں ووٹ دیا۔ مجھے میرے شہر کے کسی اخبار نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ اس حلقے کے امیدوار نے حلقے کا کون سا مسئلہ کس پلیٹ فارم پر اٹھایا ہے اور کون سا مسئلہ ابھی تک اس کے لبوں پر آتے آتے رہ جاتا ہے۔ اٹھائے گئے مسئلے کا کیا حل ہوا اور نہ اٹھائے گئے مسائل کے حل کے لیے منتخب رکن اسمبلی کیا سوچتے ہیں۔ ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن کے درمیانی پانچ سالوں میں مجھے اپنے حلقے کے امیدوار کے سیاسی سفر، سیاسی کارکردگی اور سیاسی بصیرت کا کچھ پتہ نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ ان پانچ سالوں میں چوبیس گھنٹے چلنے والے چینل اور درجن بھر صفحات والے اخبارات کیا کرتے رہے ہیں۔۔۔؟ ؟یہ پورے پاکستان سے کسی ایک رکن اسمبلی کا سیاسی بائیو ڈیٹا بتانے میں ناکام ہیں۔ گلیاں پکی کروا دینا اور نالیاں تعمیر کروا دینا کسی رکن اسمبلی کی سیاسی کارکردگی نہیں ہوتی بلکہ اسمبلی میں اس نے اپنا کیا کردار ادا کیا، یہ پتہ ہونا عوام کا حق ہے اور عوام کو اس بارے میں مکمل اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔ جب مجھے اپنے امیدوار کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں کہ یہ اسمبلی میں کرتا کیا ہے تو میں اب کیسے کسی کو ووٹ دے سکتا ہوں۔ ۔۔؟؟ کیسے کسی کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کر سکتا ہوں یا سوال اٹھا سکتا ہوں ۔۔۔؟؟ ان تمام سوالوں کا بس ایک ہی جواب ہے کہ مان لو صاحب میڈیا پیسے کھاتا ہے۔
میڈیا لوگوں کی ذہن سازی کرنے، ان کے ذہنوں اور رائے کو بدلنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ حکومت وقت اس بات کو جانتی اور سمجھتی ہے اسی لیے ہر حکومت نے میڈیا کے ساتھ بنا کر رکھنے کی کوشش کی۔ کچھ جگہ براہ راست رقوم فراہم کی گئیں اور باقی جگہ اشتہارات کو بطور رشوت اور دھونس استعمال کرتے ہوئے اپنے من پسند نتائج حاصل کئے جانے کی تگ و دو کی گئی۔ اسی وجہ سے میڈیا نے کبھی بھی عوامی مسائل اور معاملات پر بات نہیں کی۔ سیاست کے موضوع پر گرما گرمی دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے جذباتیت کو ہوا دی۔ کبھی یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ عوامی نمائیدہ گلیاں اور نالیاں پکی کروانے اسمبلی میں نہیں جاتا بلکہ اس کا کام تو قانون سازی ہے۔ کسی بھی الیکشن میں حلقے والے اپنے نمائیندوں کے بارے بالکل خالی ذہن ہوتے ہیں اور سیاسی کارکردگی کے نام پر وہ یا تو چینلوں پر ماری جانے والی بڑھکوں کو جانتے ہیں یا علاقے کی دو گلیوں اور چار نالیوں کو۔ کیا واقعی یہی سب سیاست ہے اور کیا ایک امیدوار انہی کاموں کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب نہیں میں ہے تو جناب مان لیں کہ پھر میڈیا پیسے کھاتا ہے ۔ اسی لیے تو کبھی سیاسی ٹاک شو میں سیاست پر ، اسمبلی میں کارکردگی پر، ریاست پر، ریاست کی عزت اور دنیا میں اس کے مقام پر بات نہیں ہو تی۔ لوگوں کے پاس اپنے نمائیندوں کی سیاسی کارکردگی کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے۔ اخبارات کے پانچ سالوں میں شائع کئے گئے ہزاروں صفحات صرف کالے صفحے تھے اور چینلوں پر صرف ڈرامہ بازیاں اور ریٹنگ کی دوڑ تھی۔ آسان اور دو لفظوں میں مان لو صاحب کہ میڈیا پیسے کھاتا تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری جھولی اور ذہن میں کچھ تو ہوتا۔۔۔ پوچھنے کو سوال ہی سہی مگر کچھ تو ہوتا لیکن وہ بھی نہیں ہے تو مان لو صاحب کہ میڈیا پیسے کھاتا ہے۔(خرم شہزاد)۔۔