تحریر: ظہیر احمد بابر
دنیا بھر سے صدیوں تک دولت جمع کرنے والا برطانیہ آج بھی چالبازی سے باز نہیں آرہا۔ برصغیر ہو یا امریکا۔ شروع میں تاجر بن کے ملا ۔ پہلے ہاتھ ملایا پھر مقامی غدار ساتھ ملائے اور آخر میں وہی ہاتھ گریبان پر ڈال دیا۔ صدی بھر یہی قصہ چلا ، دنیا محنت کرتی رہی، انگریز حکمرانی ۔ لندن امیر ہوتا گیا اور غلام غریب ۔ پنجابی کا یہ محاورہ بنا تو نادر شاہ کے لیے ہے لیکن زیادہ فٹ فرنگی سرکار پر آتا ہے ۔ کھادا پیتا ماہی دا ، باقی نادر شاہی دا۔
کل تک فرنگی دنیا میں لوٹ مار کرنے جاتے تھے آج انہوں نے نئی ترکیب لڑائی ہے اور برطانیہ کو لٹیروں کے لیے محفوظ جنت بنا دیا ہے۔ اب فرنگیوں کو سونا چاندی کے لیے جابجا جوتے چٹخانے نہیں پڑتے بلکہ دنیا بھر سے مادیت پسند اپنوں کو لوٹ کر مال برطانیہ لے آتے ہیں۔قوم کو سستے داموں بیچنے والے یہاں مہنگے داموں جائیدادیں خریدتے ہیں ۔ کالے دھن کی منی لانڈرنگ کرکے سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ وہ خوش ہیں لوٹ مار کی دولت کام آگئی ۔ اپنوں سے غداری کرنے والے کئی ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور اپنے ملک کے اداروں کو سینہ ٹھوک کر بتاتے ہیں کہ ہم برطانوی شہری ہیں تمہارا قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتا۔ عدالتوں کے اشتہاری یہاں مکمل تحفظ پاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں جب ضرورت پڑی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر دوبارہ ‘اپنوں’ میں پہنچ جائیں گے ۔اس میں سیاستدان اور تاجر کی کوئی تمیز نہیں ۔ تیسری دنیا میں تاجر ہی حکمران ہیں جو نہیں وہ طاقت کے زور پر حکمران بنتے ہیں اور پھر تجارت شروع کر دیتے ہیں ۔ ایک ڈھونڈو سو فرنٹ مین مل جاتے ہیں ۔ ان ٹھگوں سے فرنگی بہت خوش ہے ۔ ہینگ لگی نہ پھٹکری ،رنگ بھی چوکھا آ رہا ہے۔
رنگ میں بھنگ پچھلے برس پڑا جب منی لانڈرنگ کے خلاف عالمی دباؤ بڑھا۔ پانامہ لیکس میں تب کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام آیا تو اس نے آف شور کمپنی اپنے والد کی قرار دے کر جان چھڑائی ۔پاناما لیکس کے بعد پچھلے سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پانچ افراد کی جائیدادوں کی نشاندہی کی کہ ان کے مالکان کے ذرائع آمدن مشکوک ہیں۔ اس میں ہمارے تین مرتبہ منتخب ہونے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی شامل ہے۔ زیادہ شور مچا تو گوروں نے undeclare wealth order جاری کر دیا۔ اس کے تحت ایسی ہر جائیداد جس کی نشاندہی کی جائے گی کہ اس کی خریداری میں استعمال ہونے والی رقم مشکوک ہے تو اس کی چھان بین کی جائے گی۔ پانچ سے زائد محکمے منی ٹریل اور باقی معاملات کا جائزہ لے کر بتائیں گے ۔ خریداری میں لگا دھن سیاہ تھا یا سفید۔ انصاف کے علمبردار فرنگی اپنوں کا کڑا احتساب کرتے ہیں لیکن جب اپنے مفاد کو زد پڑتی نظر آئے تو دوسروں کے لیے بھی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ یہی سلوک گوروں نے کالے دھن کی نشاندہی کرنے والے قانون کے ساتھ روا رکھا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نشان زدہ پانچ ناموں کا کچھ نہیں بگڑا۔ سال گزر گیا وزارت داخلہ کے اعلیٰ عہدیدار نے کندھے اچکاتے ہوئے بس اتنا بتایا۔ تحقیقات جاری ہیں۔
لندن میں ایجویئر روڈ، پارک لین، ایون فیلڈ، مے فیئر، الفرڈ، پاکستانی ہائی کمیشن کا ایریا جہاں سے گزر ہوا۔ یہی آواز آئی اس عمارت میں شریف خاندان کے فلیٹس ہیں۔ یہاں رحمان ملک کا فلیٹ ہے ۔ اس پلازے میں آصف زرداری نے پینٹ ہاؤس خریدا تھا۔ لندن کے نواح میں جہانگیر ترین کا فارم ہاؤس ہے۔ فلاں ہوٹل فلاں پاکستانی سرمایہ دار نے خرید لیا ہے۔ ایک بار تنگ آکر ساتھیوں سے پوچھ ہی لیا۔ بکنگھم پیلس بچ گیا یا نہیں؟ ثبوت مانگے تو جواب ملتا ہے جہاں آگ ہو دھواں وہیں سے نکلتا ہے ۔ نواز شریف کو یہ داد دینا پڑے گی ۔ عرصے سے پاکستانی سیاستدانوں کی رہائش کے لیے پسندیدہ جگہ ایجویئر روڈ رہی ۔ نواز شریف پہلے پاکستانی حکمران ہیں جنہوں نے ایجویئر روڈ کے بجائے پارک لین کو جاتی امرا بنایا۔چھوٹے بھائی شہباز شریف نے البتہ ایجویئر روڈ پر اسٹیٹس کو کے ساتھ رہنے کو ہی ترجیح دی۔
ہمارے لندن میں قیام کے دوران ہی شہباز شریف نے وطن واپسی موخر کرنے کا اعلان کیا۔ لندن کی سڑکوں پر شہباز شریف اور سلمان شریف کا مائیک لے کر پیچھا کرنے والے صحافی نوید چودھری روز ملاقات میں ایک نئی کہانی سناتے ۔ آخر کار رات گئے شہباز شریف کو ریسٹورنٹ میں کسی بریف کیس والے شخص سے ملاقات کرتے ہوئے جاہی لیا۔یہ وہی ملاقات ہے جس میں شہباز شریف نے بجٹ سے پہلے اپنی واپسی کا اعلان کیا۔ اگلی صبح نوید چودھری نے اپنی ملاقات اور تاثرات کے بارے ميں تفصیل سے بتایا۔ پوچھا میاں صاحب فوری واپس جائیں گے ۔ جواب ملا ہنوز دلی دور است ۔
لندن میں خبریں گرم ہیں ۔ سب اپنی جائیدادیں ٹھکانے لگا رہے ہیں تاکہ سینہ تان کر نیب کا سامنا کر سکیں ۔ نیب میں پیشی کے بجائے لندن چلے آنے والے سلمان شہباز بھی اپنی کاروباری ذہانت دکھا رہے ہیں ۔حسین نواز روز روز کے عوامی ردعمل سے تنگ آکر اپنی رہائش بدل چکے اور اسحاق ڈار بھی اپنی قیام گاہ کا بتانے سے کتراتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے، لندن آج بھی یہ پوچھنے کو تیار نہیں کہ روپیہ کہاں سے آیا۔ ہم نے لندن آئی میں بیٹھ کر دیکھ لیا ۔ شہر میں چاروں طرف عمارتوں کا نیا جنگل اگ رہا ہے۔ گوروں میں تو انہیں خریدنے کی سکت نہیں۔ لامحالہ ان عمارتوں کے مہنگے فلیٹس میں وہی رہیں گے جنہوں نے اپنے ملک میں جنگل کے قانون پر عمل کیا۔ کالا دھن کے منجمد قانون سے بھی سیانے گورے جب چاہا فائدہ اٹھا لیں گے ۔ابھی سرمایہ ہاتھ آرہا ہے جب ضرورت پڑھی اس کے مالکان کو اپنے مفادات کے لیے آزمائیں گے کسی نے انکار کیا تو یو ڈبلیو آرڈر حرکت میں آجائے گا۔ اسے کہتے ہیں چت بھی اپنی،پٹ بھی اپنی ۔ واہ فرنگی مان گئے تری عیاری ۔(ظہیراحمد بابر)۔۔
(ظہیر احمد بابر صاحب سینئر صحافی اور منجھے ہوئی لکھاری ہیں، برسوں پہلے ان کی تحریر کردہ ایک کتاب ،بازار حسن سے پارلیمنٹ ہاؤس تک ، نے کافی شہرت کمائی تھی،یہ کتاب آج بھی ان کا تعارف ہے۔۔ ظہیر بھائی کے ساتھ نیونیوزمیں کچھ عرصہ گزارا جو بہت یادگار رہا، اب آپ ظہیراحمد بابر کی تحریریں تواتر کے ساتھ ہماری ویب پر پڑھ سکیں گے۔۔علی عمران جونیئر)