تحریر: نسیم زہرہ
یہ معاملہ صحافیوں کو ایک قانون کے تحت چلانے کا نہیں ہے اور نہ یہ معاملہ پاکستان کی بقا کا ہے، نہ پاکستان کی سالمیت کا ہے اور نہ یہ صحافت کو ایک بہتر طریقے سے آگے بڑھانے کا ہے۔ یہ معاملہ یقیناً کوئی اور ہے۔یہ معاملہ ان قوتوں کے حق میں ہے جو پوشیدہ ہیں اور سامنے نہیں آتیں۔ جن کا نام نہیں لیا جاتا، جن کے بارے میں کچھ مصدقہ بات نہیں کی جاتی، قانون کے زاویے میں نہیں کی جاتی۔ لیکن ان قوتوں کا ایک کردار ہے جو صحافت کے حوالے سے اہم ہے۔یہ قوتیں صحافیوں پر قدغن لگانا چاہتی ہیں، ان کو ڈرانا چاہتی ہیں اور ان کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ صحافت کو کسی پیرائے میں کام کرنا ہے۔ کسی پیرائے میں آپ کہیں گے کہ صحافت ہو اور وہ قانونی سیاق و سباق میں ہونی ہے۔ ایسا سیاق و سباق جو ہمارے آئین کے مطابق ہو۔ اس دائرہ کار کے اندر رہ کر اگر صحافت ہو تو اس حد تک تو یہ ٹھیک ہے کہ صحافت کو شفاف ہونا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ بات اس نوعیت کی نہیں ہے۔ مسئلہ کی نشاندہی قانونی دائرہ کار میں ہونا یا نہ ہونے کے حوالے سے نہیں ہے۔ آپ یہ نہیں سنتے کہ یہ قانون ہے صحافی اس کے خلاف گئے یا صحافیوں نے اس قانون سے ہٹ کر اپنا کام کیا۔ تو اس لیے ان کو آپ لے جائیں عدالت میں ان کی پوچھ گچھ کرائیں اور ان کا ٹرائل کرائیں۔یہ تو بہت کم ہوتا ہے۔ یہ جب ہوتا ہے تو اس کی خبر اتنی نہیں بنتی۔ یہ جب ہوتا ہے تو اخباروں اور ٹیلی ویژن پر جرمانہ عائد ہو جاتا ہے۔ چینلز کو کئی کئی دن بند کر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پیمرا کے قوانین کی خلاف ورزی کی۔
وہ بہرحال اور بات ہے کہ قوانین کو جب لاگو کیا جاتا ہے تو وہ صحیح نہیں کیا جاتا۔ اس میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔ اسی وجہ سے پیمرا نے کئی مرتبہ چینلز کو جب سزا دی تو چینلز عدالت میں چلے گئے۔ اس میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ کبھی چینلز کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی جیسے کہ چینل 24 نے بہت مرتبہ کہا۔ ہمیشہ چینل اپنے دفاع میں اٹھتے ہیں، اخبارات اپنے دفاع میں بات کرتے ہیں اور پھر ایک نظام ہے جس میں عدالت کا بھی کردار ہے۔ پیمرا اور دیگر اداروں کا بھی کردار ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے اور صاف ہے۔
لیکن صحافیوں کو اٹھانا یا ان کی مارپیٹ کر کے کہیں پھینک دیا جانا یا ان کے گھروں میں جا کر ان کو مارا جانا یا پھر گولی ماری جائےاور ان کا تعاقب کیا جائے تو یہ اصل معاملہ ہے، جس پر ہمیں سوچنا ہوگا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلاگر اور صحافی اسد علی طور جو اپنے بلاگز میں بہت کچھ کہتے رہے ہیں۔ یہ باتیں کئی قوتوں کو پسند بھی نہیں آئیں اور ان کو پیغام بھی بھجوایا گیا کہ آپ یہ نہ کریں۔ اپنے تئیں اسد طور نے جو کرنا تھا وہ کیا۔ وہ مختلف موضوعات جن کا مقتدر حلقوں سے تعلق تھا بلاگز کر رہے تھے۔تو پھر آخر ہوا یہ کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ان کے اپارٹمنٹ میں جا کر تین لوگوں نے انہیں زدوکوب کیا، ان کے ہاتھ پیر باندھے، ان کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔اسد طور بتاتے ہیں کہ انہیں بولا کہ یہ کہو وہ کہو اور انہیں دھمکیاں بھی دیں اور ان سے نعرے بھی لگوائے۔ بات یہ ہے کہ اسد طور جو ایک خاص نوعیت کی اپنی بلاگنگ کر رہے تھے ظاہر ہے یہ سوال اٹھے گا کہ جن لوگوں نے پیغام بھجوائے کیا انہوں نے ہی یہ کیا ہے؟
وہ کون لوگ تھے جو صحافی کے گھر میں گھسے اور ان پر تشدد کر کے چلے گئے؟ لگتا ہے بہت سے حلقے ہیں جو اس سوال کا جواب ہی نہیں چاہتے۔ اس سوال کے جواب میں سب سے پہلا قدم درج ایف آئی آر کے تحت ان تین افراد کو گرفتار کیا جائے جن کے چہرے سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جن کو اسد طور پہچان سکتے ہیں۔بجائے اس کے کہ اس طرف قدم بڑھایا جائے اسد طور کے حوالے سے بہت سی اور باتیں نکل آئیں کہ ان کی کسی خاتون سے دوستی تھی، ان کے بھائیوں نے مارا ہے پھر یہ کہ اسد طور کے خلاف کیس ہے، اسد طور نے خواتین کے حوالے سے بہت غلط باتیں کی ہیں، وہ کوئی فرشتہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔اسد طور نے شاید سو غلطیاں کی ہوں ہم نہیں جانتے۔ اگر کچھ کیا ہے تو اس سے قوانین کے تحت پوچھ گچھ ہونی چاہیے لیکن اس سے ہٹ کر گھر میں گھس کر ان کو باندھ کر مارا گیا ہے تو سوال تو بنتا ہے۔ اور اس سوال کا جواب ہر صورت ملنا چاہیے۔
چاہے ابصار عالم ہوں یا مطیع اللہ جان ہوں، صحافیوں کے ساتھ ایسا ہونا بالکل غلط ہے۔ پتا چلنا چاہیے کہ یہ کون کر رہا ہے کیونکہ اگر ایک طرف صحافیوں کے حوالے سے یہ بات صحیح ہے کہ آپ بات کریں تو کسی بنیاد اور ثبوت پر بات کریں۔ آپ کی بات مصدقہ ہونی چاہیے۔اسی طریقے سے یہ اس سے بھی زیادہ لازم ہے کہ یہ نہ ہو کہ پاکستان میں کچھ ایسے حلقے ہوں جو یہ سمجھتے ہوں کہ ان کےحوالے سے صحافی کوئی بات کریں تو ان کو پہلے دھمکی دی جائے اور بعد میں مارا جائے۔کہیں سلیم شہزاد جیسا صحافی ہے تو اس کو ختم بھی کر دیا جائے اور ایسا کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کوئی بات کی تہہ تک پہنچنے والا نہیں ہے۔ اگر یہ سلسلہ اس طرح ہی چلے گا تو پھر پاکستان کا ایک حصہ تو جیسے جنگل کی طرح ہوگا۔جہاں ایک قسم کی دہشت پھیلا کر صحافیوں کو خاموش کرائیں ایسا بالکل نامنظور ہے۔ اس بات کو روکنا ہوگا اور اس چیز کی شروعات اسد طور کے مقدمے کو کسی نتیجے پر پہنچا کر کرنی ہوگی۔ان لوگوں کی نشاندہی ہر صورت ہونی چاہیے جنہوں نے اس کو مارا ہے۔ اس بات کایقین دلانا ہوگا کہ جو بھی ملزمان ہیں دہشت گرد ہیں ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا پڑے گا۔ جہاں تک صحافیوں کا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔(بشکریہ اردو انڈی پینڈنٹ)۔۔