تحریر: انصار عباسی۔۔
سینیٹ نے گزشتہ جمعہ کو اپنے ارکان، ڈپٹی چیئرمین اور چیئرمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز سے متعلق تین پرائیویٹ ممبر بل یہ تاثر دیتے ہوئے منظور کیے کہ ان کی منظوری سے مالی بوجھ نہیں پڑے گا۔تاہم، جب موجودہ قوانین کا موازنہ ان تین بلز کے ساتھ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی منظوری سے بھاری مالی بوجھ پڑے گا، کیونکہ مختلف الاؤنسز، مراعات اور سہولتوں کو بجٹ دستاویز کا حصہ بنائے بغیر ان میں بڑی ہی چالاکی کے ساتھ بھاری اضافہ کر دیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ نے جو کچھ کیا وہ ناجائز ہے، ان اضافہ جات کو بجٹ کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بل اب قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔پیر کو اس معاملے پر دی نیوز کی رپورٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ بل قومی اسمبلی سے منظور کرائے گئے ہیں جو کہ غلط ہے اور غلطی پر افسوس ہے۔دریں اثناء موجودہ قوانین اور سینیٹ میں منظور کیے گئے ان بلز کا موازنہ کیا جائے تو یہ بل پیش کرنے والے ارکان سینیٹ کے اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ ان کی منظوری سے مالی بوجھ نہیں پڑے گا۔ حتیٰ کہ چیئرمین سینیٹ نے جمعہ کو ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ قانون سازی کا مقصد صرف سینیٹ اور قومی اسمبلی کے نمائندوں کیلئے علیحدہ قانون بنانا ہے۔دی نیوز کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سینیٹ کے پاس کردہ بل باضابطہ قانون بن گئے تو نہ صرف چیئرمین سینیٹ بلکہ ڈپٹی چیئرمین، تمام سینیٹرز اور سینیٹ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو اضافی فوائد حاصل ہوں گے۔ ان بلوں میں زیادہ تر اضافی مراعات چیئرمین سینیٹ اور سابق چیئرمینوں کو دی گئی ہیں۔مثال کے طور پر موجودہ قانون چیئرمین سینیٹ کو اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کی اجازت دیتا ہے جس کے اخراجات ایک لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ تاہم، تازہ ترین منظور کردہ بل میں اس رقم کو بڑھا کر پچاس لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔اسی طرح موجودہ قانون میں چیئرمین کیلئے اضافی الاؤنس 6؍ ہزار روپے ہے جسے بل میں بڑھا کر 50؍ ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ موجودہ قانون میں چیئرمین کی صوابدیدی گرانٹ 6؍ لاکھ روپے جبکہ نئے بل میں اس رقم کو بڑھا کر 18؍ لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔چیئرمین کے سرکاری دورے کے دوران یومیہ الاؤنس کو موجودہ 1750؍ روپے سے بڑھا کر 10؍ ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر دن کے قیام کیلئے 4800 روپے کا خصوصی ریٹ بڑھا کر 15؍ ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔موجودہ قانون میں چیئرمین سینیٹ صرف ایک سرکاری گاڑی رکھنے کا مجاز ہے لیکن بل میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین اور ان کے فیملی ممبرز سرکاری اخراجات پر سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے حقدار ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چیئرمین اور ان کی فیملی ارکان دو، تین، چار یا اس سے بھی زیادہ گاڑیاں رکھ سکیں گے۔
سینیٹ سے منظور ہونے والے بل میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت چیئرمین سینیٹ پاکستان سے باہر سرکاری امور کیلئے جائیں گے تو انہیں نائب سربراہ مملکت یا نائب صدر کے مساوی پروٹوکول دیا جائے گا۔بل کی ایک اور شق کے مطابق، چیئرمین سینیٹ بیرون ملک سفر کے دوران اگر عوامی مفاد میں ضروری سمجھے تو وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کا ہوائی جہاز، مسلح افواج یا ملک کے کسی بھی فلائنگ کلب یا چارٹرڈ طیارہ فراہم کرنے والی کمپنی کا طیارہ سرکاری نرخوں پر حاصل کرنے کا مجاز ہوگا۔چیئرمین سینیٹ کمرشل ہوائی جہاز میں سفر کرتے وقت فیملی کے ایک فرد کو یا مطلوبہ ہوائی جہاز میں سفر کرتے وقت فیملی کے چار افراد کو بھی ساتھ لے جا سکیں گے۔ موجودہ قانون میں ایسی سہولت صرف چیئرمین کے پاکستان میں سفر کیلئے دستیاب تھی۔موجودہ قانون میں چیئرمین اور ان کی فیملی ’’اسپیشل میڈیکل روُلز‘‘ کے تحت ہی طبی سہولتیں حاصل کرنے کی مجاز ہے۔ خصوصی طبی قواعد کے تحت قابل قبول طبی سہولیات کا حقدار ہے، ماسوائے اس کے کہ وہ اور ان کی فیملی ارکان علاج سرکاری رہائش گاہ پر کرائیں۔نئے منظور کیے گئے بل میں نہ صرف چیئرمین اور ان کی فیملی ارکان کو سرکاری اور نجی اسپتالوں اور ان کی سرکاری رہائش گاہوں میں طبی سہولتیں حاصل ہو سکیں گے بلکہ تین سال کی مدت مکمل کرنے والے ملک کے تمام سابق چیئرمین سینیٹ، ان کی بیویوں، بیواؤں کو بھی سرکاری و نجی اسپتالوں کے ساتھ اپنی اپنی رہائش گاہ پر علاج معالجے کی سہولت ملے گی۔بل میں ایک اور شق ہے جس کے تحت چیئرمین سینیٹ نہ صرف فنانس کمیٹی کی منظور کردہ تعداد میں ذاتی عملہ رکھ پائیں گے بلکہ فنانس کمیٹی کو بھی مجاز بنایا گیا ہے کہ وہ الگ سے 12؍ ملازمین کا عملہ چیئرمین سینیٹ کو فراہم کرے۔موجودہ قانون کے مطابق، سابق چیئرمین سینیٹ کو حکومت کی طرف سے متعین کردہ سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ تاہم، نئے بل میں کہا گیا ہے کہ سابق چیئرمین کو تاحیات مکمل حفاظتی بندوبست فراہم کیا جائے گا، یعنی متعین کردہ رہائش گاہ پر 6؍ سنتری، اور ایک اسکواڈ گاڑی میں پولیس، انسداد دہشت گردی فورس، فرنٹیئر کور یا فرنٹیئر کانسٹیبلری کے چار اہلکار۔سینیٹ سے ارکان سینیٹ کی مراعات اور سہولتوں کا بل بھی منظور کیا گیا ہے جس میں ان کے یومیہ الاؤنس، کنوینس الاؤنس، مائلیج الاؤنس، سرکاری دورے پر بیرون ملک فرسٹ کلاس سفر کے ساتھ ہر سینیٹر کیلئے سفری واؤچرز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
اس بل کی مرہون منت، سابق سینیٹرز بھی کچھ سہولتوں سے لطف اندوز ہو پائیں گے۔ انہیں وہی طبی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جس سے وفاقی حکومت کے بائیس گریڈ کے افسران لطف اندوز ہوتے ہیں۔قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کیلئے موجودہ قانون میں جو سہولتیں اور مراعات دی گئی ہیں ان کے علاوہ وہ سیکورٹی کے مقاصد کیلئے اضافی گاڑیاں بھی حاصل کر پائیں گے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کیلئے ماہانہ ساڑھے 12 ہزار روپے کا اعزازیہ دگنا کرکے 25؍ ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کو 1300 سی سی گاڑی رکھنے کی اجازت ہے تاہم نئے قانون میں گاڑی کا معیار بڑھا کر اسے 1600 سی سی کرتے ہوئے پٹرول مفت پٹرول کی مقدار ماہانہ ساڑھے 300؍ لٹر کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ، تمام ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اُتنا ہی اضافہ کیا جائے گا جتنا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کیا جائے گا۔دلچسپ بات یہ صرف سینیٹر مشتاق احمد کے اختلاف کے علاوہ باقی تمام ارکان نے ان بلز کے حق میں ووٹ دیا۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی وغیرہ سبھی نے ان بلز کی حمایت کی۔یہ پرائیویٹ ممبر بل سینیٹرز کودا بابر، منظور احمد، میاں رضا ربانی، سید یوسف رضا گیلانی، دلاور خان، فاروق ایچ نائیک، مشاہد حسین سید، ڈاکٹر افنان اللہ خان، عطا الرحمان، محمد عبدالقادر، حافظ عبدالکریم، ڈاکٹر شہزاد وسیم، ذیشان خان زادہ، فوزیہ ارشد، سردار محمد شفیق ترین، ہدایت اللہ خان، سعید احمد ہاشمی، عرفان الحق صدیقی، محمد اکرم، فدا محمد، پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی، سیف اللہ ابڑو، شہزادہ احمد عمر احمد زئی، دانش کمار، رانا محمود الحسن، فلک ناز، مولانا عبدالغفور حیدری، سیمی ایزدی، محمد ہمایوں مہمند، کیشو بھائی، بہرامند خان تنگی، عابدہ محمد عظیم، محمد طاہر بزنجو، نزہت صادق، پلوشہ محمد زئی خان، ہلال الرحمان، روبینہ خالد، سید اللہ سرور خان نیازی، خالد طیب اور خالد محمود اور انور لال دین نے پیش کیے تھے۔(بشکریہ دی نیوز)