تحریر: انور حسین سمراء، تحقیقاتی صحافی
سرکار کا مال ہو اور بلاتفریق ہاتھ صاف نہ کئے جائیں یہ ہونہیں سکتا۔۔ مثل مشہور ہے کہ چاہے سیاست دان ہو، افسر ہو، جج ہو یا جنرل وہ اپنی ایک بوٹی کی خاطر پورا اونٹ ذبح کر دیتا ہے اور اس معاشرے میں جہاں نہ انصاف ہو اور احتساب بدمست ہاتھی کی طرح گہری نیند سو رہا ہو وہاں ہر پاسے لٹ پے چکی ہوتی ہے. ایسے معاشرے میں سرکاری وسائل اور خزانے سے ہاتھ صاف کرنا بااثر شخصیات و خاندانوں کا مشغلہ بن جاتا ہے اور غریب عوام کیڑے مکوڑے بن کر پیروں تلے روند دیئے جاتے ہیں. بھاگم بھاگ میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے اور ننگی آنکھوں کے سامنے ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی حقدار حق نہ مانگ سکے اور ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے. جب سے راقم شعبہ صحافت سے وابسط ہوا ہے تمام سیاستدانوں، بابوؤں، ججز اور جنرلوں کو سرکاری وسائل سے کھلواڑ کرتے دیکھا، آواز بھی اٹھائی لیکن سسٹم ایسا امیون ہوگیا کہ ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی تو دور کی بات شرمندگی کا احساس و ندامت بھی محسوس نی کی جاتی. شوباز شریف جو صوبے میں گڈ گورنسس، میرٹ، شفافیت اور اخراجات میں ایمانداری و کفایت شعاری کا دعویٰ کرتے تھے نے اپنے اور بڑھے بھائی (باو جی) کے 5 گھروں کو اپنا کیمپ آفس قرار دلوایا تھا تاکہ ان گھروں کی تزئین و آرائش، یوٹیلیٹی بلز اور انٹرٹینمٹ (چائے پانی و کھابے) سرکاری خزانے سے پورے کیے جاسکیں اور ہوتے رہے. ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے عہدے کی تنخواہ نہیں لیتے لیکن اپنے کیمپ آفسز کے اخراجات کی مد میں ماہانہ سرکاری خزانے سے کروڑوں کے اخراجات کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں. ابا جی حضور کی قبر انوار پر ہر جمعرات کو ایوان وزیر اعلیٰ سے دو بریانی و زردے کی دیگوں سے غریبوں میں خیرات کرکے ابا جی مرحوم کی بخشش و بلند درجات کا انتظام بھی شوباز شریف خوب کرتے تھے. کپی تان کے وسیم اکرم پلس کا سنہری دور آیا تو سرکاری طور پر کوئی کیمپ آفس نہ بنایا گیا بلکہ کمشنر ڈی جی خاں موصوف کے آبائی گھر بارتھی، تونسہ اور ڈی جی خاں کے اخراجات کرنے کا ذمہ دار تھا جبکہ کمشنر ملتان یہ خدمات بزدار ہاوس ملتان میں ادا کرتے تھے. بزدار کی اپنے وزراء پر اتنی کمزور رٹ تھی کہ 20 وزارء نے منسٹر بلاک میں کمرے الاٹ اور سٹاف تعینات ہونے کے باوجود اپنے اپنے محکموں میں کیمپ آفسز بنا ئے ہوئے تھے. فی کیمپ آفس روزانہ 50 ہزار تک محکمہ وزیر کے مہمانوں کو کھابے فراہم کرنے پر خرچ کرتا تھا. چوہدری جب پنجاب میں کپی تان کو بلیک میل کر کے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر براجمان ہوا تو امید کی جانے لگی کہ آپ سرکاری خزانہ چوروں و ڈاکوؤں سے محفوظ ہوگا کیونکہ چوہدری وضعداری میں اپنی مثل نہیں رکھتے اور اپنے دفتر کے اخراجات جیب سے کرتے ہیں لیکن یہ ہماری خوش فہمی اپنی موت آپ مر گئی جب علم ہوا کہ ایوان وزیر اعلیٰ میں سیاسی افراد اور افسران کو چوہدری صاحب کے آنے کے بعد دوپہر کو روزانہ کی بنیاد پر کھابے فراہم کیے جاتے ہیں جبکہ ایک چہرے جو نہ وزیر ہیں نہ مشیر انہوں 90 شارع قائداعظم پر سرکاری وسائل لٹنے میں آنی پائی ہوئی ہے. چوہدری صاحب نے ہمارے اعتماد کو اس وقت ایک اور دلتی ماری جب ان کے حکم پر ڈیوس روڈ مسلم لیگ ہاوس کو ان کا کیمپ آفس قرار دیا گیا تاکہ اس بھوت بنگلے جہاں آلو بولتے ہیں کی تزئین و آرائش سرکاری خزانے سے ہو سکے اور تمام یوٹیلیٹی بلز و چائے پانی کے اخراجات ایوان وزیر اعلیٰ سے ہوسکیں. آپ یہاں کھل کر مہمان نوازی ہوگی اور اخراجات وزیر اعلیٰ کی میٹنگز کے جعلی بلز بنا کر پورے کیے جائیں گے. شوباز، بزدار کے بعد چوہدریوں کا میرٹ، ایمانداری اور کفایت شعاری سر چڑ کر بولے گئی. سرکاری خزانے کی حفاظت کا حلف شرمندہ ہوگا اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر انسدادِ رشوت ستانی کا محکمہ و احتساب شرم سے ڈوب مرے گا. اب سوال یہ ہے کہ ہے کوئی اس ملک اور عوام کے خزانے کی حفاظت کا امانت دار جبکہ اس فرض کی ادائیگی کا حلف تو سب لیتے ہیں. کیا کوئی اس لیٹرے ٹولے اور مافیا کو نتھ ڈال سکے گا یا ملک خداداد ایسے لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے گا؟؟( انور حسین سمراء، تحقیقاتی صحافی)۔۔