تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ماہ صیام کے آخری ایام چل رہے ہیں، آج چوبیس واں روزہ اور پچیس ویں طاق رات ہوگی۔۔ آج جمعہ مبارک کو ’’الوداع‘‘ بھی کہاجارہا ہے، کیوں کہ اب رمضان المبارک میں اگلا جمعہ نہیں آئے گا۔ آج مساجد میں پہلے سے زیادہ رش نظر آئے گا۔ہمارے یہاں الوداع کے روزے پر خاص تیاریاں کی جاتی ہیں، کچھ گھروں میں تو نئے جوڑے بنائے جاتے ہیں۔۔ مساجد ایسی بھری ہوتی ہیں کہ دیکھ کر طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔۔ رمضانوں میں بچپن سے دیکھتے آئے تھے، سڑکوں پر افطار کے اجتماعات کا اپنا ہی حسن تھا۔۔ آپ شہر میں کہیں بھی ہوں، آپ کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ روزہ کھولنا ہے اس لیے جلدی گھر پہنچو۔۔ ہر سڑک، ہر اسٹاپ، ہر چوراہے پر شاندار قسم کی افطار آپ کی منتظر ہوتی تھی، نوجوان زبردستی روک روک کر نہ صرف افطار کراتے تھے بلکہ ٹھنڈا شربت، جوس بھی پیش کرتے تھے۔۔کراچی میں تو اب بھی ایسا ہی چل رہا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے اور عام طور پریہ بات سچ بھی ثابت ہوئی ہے کہ رمضان میں بڑے بڑوں کا بجٹ فیل ہوجاتا ہے، کیونکہ ماشااللہ اس ماہ مبارک میں دن بھر روزے رکھنے والے خوش عقیدہ حضرات کی خوش خوراکی نفس پر ایسی حاوی ہوتی ہے کہ کسی نعمت کو چھوڑنا گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔۔کھجور اور پکوڑے سے لے کر زرق برق ملبوسات تک ببانگ دہل آزادانہ لوٹ مار جاری رہتی ہے۔ حقیقت سے ہمارا رشتہ کچھ زیادہ دوستانہ نہیں، برا نہ منائیے گا لیکن رمضان دراصل ہمارے لیے سال کا سب سے بڑا بزنس سیزن ہوتا ہے۔ غریب روزہ دار مجبور ہے کہ منہ مانگے مول ادا کرے، ٹھیلے والا ہو یا عظیم الشان شاپنگ مال اس مقدس مہینے کی برکت سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماہ مقدس کے نام پر ٹی وی چینلز میں علما، نعت گو، اداکار، کرکٹرز، ماڈلز، گلوکار سب ایک میک اپ میں ایک ہی گھاٹ پر منہ مانگے مول لیکر سادگی، قناعت اور اللہ کی رضا کا درس دینے کی نیکی کماتے ہیں۔ سرعام کھانا پینا تو ممنوع مگر اشیائے خورونوش پر لوٹ مار کی آزادی ہوتی ہے۔۔جن کی تیوریوں پر پڑے بل دور سے نظر آ جائیں، بیزارگی اور جھنجھلاہٹ کی تصویر، یہ نشانی ہے روزہ داروں کی، اس کیفیت میں بے تکلف ہونے کا خطرہ قطعی مول نہ لیں۔ خیرحضور روزہ خور ہوں یا روزہ دار دفاتر میں کام آدھا اور جھگڑے دگنے ہو جاتے ہیں۔ بازاروں اور بسوں میں ذرا ذرا سی بات پر چیخ و پکار معمول ہوتی ہے اور بعض ’’برگزیدہ‘‘ روزہ دار مذہبی خبط عظمت کے تحت دفتری کام چھوڑ چھاڑ کر پندونصائح اپنا لیتے ہیں، یہ درسی کیفیت عموما افطار تک جاری رہتی ہے۔۔سڑکوں اور بازاروں میں ہر بندہ دوسرے کو کاٹ کھاجانے والی نظروں سے ’’گھوریاں‘‘ مارتا نظر آتا ہے۔۔ان میں سے توکچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سحری کھانے کے فوراً بعد کہنا شروع کردیتے ہیں کہ آج روزہ بہت لگ رہا ہے ،دفتر آتے ہیں تو ہر ایک سے فرداً فرداً پوچھتے ہیں’’تمہارا روزہ ہے؟‘‘ اور اس کا جواب سنے بغیر کہتے ہیں’’میرا تو ہے‘‘۔۔ تربوز والا بھی دو،تین ’’دانوں‘‘ کو دھپ،دھپ کرنے کے بعد جب چوتھا دانہ آپ کو دیتا ہے تو آپ یقین کرلیتے ہیں کہ یہی ’’دانہ‘‘ لال، رسیلا اور میٹھا نکلے گا، حالانکہ تربوز والا اصل میں آپ کی نفسیات سے کھیل رہا ہوتا ہے۔۔ہم نے بھی ایک کیلے والے سے جب پوچھا کہ کیلے کیا درجن لگائے۔۔ وہ کچھ فلسفی ٹائپ تھاکہنے لگا، دس روپے کا ایک کیلا(یعنی ایک سو بیس روپے درجن کہتے ہوئے اسے موت پڑرہی تھی شاید)۔۔ہم نے بھولپن سے پوچھا۔۔ دس روپے، چھلکے کے بغیر کتنے کا لگاؤ گے؟؟۔۔ پاکستانی تو جب تک 10 خربوزے سونگھ نہ لیں، ان کو میٹھا خربوزہ ملتا ہی نہیں۔چاہے اس چکر میں کورونا ۔۔ناسوں میں وڑ جائے۔ آفرین لوگ ہیں ہم۔ فروٹ کی دکان پر پڑے ایک خربوزے کو نجانے کتنے لوگ سونگھ کر اور کتنے دبا کر چھوڑ چکے ہوں گے پھر بھی جو شخص خربوزہ لینے آتا ہے وہ سب سے پہلے ماسک اتارتا ہے پھر اسے اٹھا کر سیدھا ’’ناسوں‘‘ سے دبا کے یوں لگاتا ہے کہ ناک ہی اوپر کو چڑھ جاتا ہے پھر گہری سانس یوں بھرتا ہے جیسے عطر سونگھ رہا ہو۔۔سارے ملک میں تاجروں نے دکانیں،سیٹھوں نے صنعتیں اور مولویوں نے مساجد کھولنے کے مطالبات کیے اور کورونا احتیاط کو بالائے طاق رکھ دیا۔لیکن سلام ہے دفتری ملازمین کی احساس ذمہ داری کو،آج تک پورے ملک میں کسی ایک نے ضد نہیں کی کہ ہمارے دفتر کھول دو، ہم کام پر جائیں گے. یہ ہوتی ہے قانون کی پاسداری۔۔ہمیں سرکاری ملازمین سے قانون کی پاسداری سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔۔ باباجی گزشتہ رات فرمارہے تھے۔۔ابھی تک افطاری کی ایک بھی دعوت نہیں آئی،یہ قوم تباہی کی طرف جارہی ہے۔۔ یہ ہمارے معاشرے کی افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جلوہ گر ہوتا ہے تو ہم میں سے کچھ لوگ رمضان کے تقدس و عظمت کا مذاق اڑاتے ہیں ،صحت و طاقت کے باوجود روزے نہ رکھ کر اس مہینے کی حرمت پامال کرتے ہیں ،کچھ ایسے ہیں جو روزہ کی فرضیت کے منکر بھی ہیں ،ایسے لوگ ہمارے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔آپ دیکھتے ہونگے کہ کچھ مسلمان صحت مند ہونے کے باوجود سڑکوں ،ہوٹلوں اور آفسوں میں دھڑلے سے کھاتے پیتے اور سگریٹ نوشی کرتے نظرآتے ہیں ، ایسے لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ’’ میری ساری امت معاف کردی جائے گی سوائے کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کے‘‘۔ (بخاری،مسلم)۔۔۔اللہ سے ڈرو جس پر کوئی چیز مخفی نہیں ،بھوک و پیاس کی یہ مشقت جو آپ اللہ کی رضا کے لیے برداشت کررہے ہیں ،اس پر بے پناہ اجرو ثواب ہے۔ حدیثِ قدسی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کابدلہ دوں گا‘‘۔۔یعنی روزہ کی عظمت اور اس کی شان اتنی بلند ہے کہ دیگر عبادتوں کے اجروثواب کے برعکس اللہ تعالیٰ خود ہی اس عبادت کا ثواب اور بدلہ بندے کوعنایت فرمائے گا۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ معصوم اور بھلے لوگو،صرف کرونا کو ہی پھیلنے سے نہیں روکنا بلکہ خود کو بھی پھیلنے سے روکنا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔