تحریر: شعیب واجد۔۔
پرسوں کراچی میں ایک کمسن بچوں کے باپ فہیم نے خودکشی کرلی۔ایسے واقعات تقریباً روز ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہوتے،اور ایسے لوگ لاکھوں بلکہ کروڑوں ہیں جن کے حالات اسی نہج پر ہیں۔ان حالات کی ایک واضح وجہ تو مہنگائی اور بے روزگاری ہی ہے۔کچھ لوگ حکومتوں کی پالیسی کو بھی اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ معاشرے میں خود غرضی اور اس سے جڑے لالچ اور کرپشن کو عام لوگوں کی موجودہ حالت کی وجہ مانتے ہیں۔
لیکن اس مضمون میں ہم ان سانحات کی وجوہات سے جڑی کچھ ایسی وجوہات پر بات کریں گے جن کے تانے بانے داخلی راستوں سے شروع ہوکر سرحدوں کے پار چلے جاتے ہیں۔اس سانحے کو اس انداز سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ آج ہماری ریاست نے عوام کو اپنانے سے انکار کردیا ہے۔ ریاست ماں کے جیسی نہیں رہی ہے۔ریاست ماں کے جیسی کیوں نہ رہی؟ ان حالات کی وجہ جاننا بہت ضروری ہے۔لیکن اس سے بھی پہلے کیا کوئی اس سوال کا جواب دے گا کہ دنیا میں کئی غریب ترین ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کوئی کئی مہینوں بھی بےروزگار رہے تو بھی اسے کم از کم بچوں کے اسکول اور اسپتال کے خرچوں کی فکر نہیں ہوتی،اور جہاں بنیادی ضروریات جیسے اشیائے خوراک اور بجلی وغیرہ اس قدر سستی ہیں کہ ان کے حصول کیلئے اس کو اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کرنا پڑتا۔۔اس کی وجہ وہ زبردست زرتلافی ہے جسے ان ریاستوں نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔کیونکہ ریاست تو ماں کے جیسی ہوتی ہے۔۔
اور وہ ، وہ ممالک ہیں جنہیں آج کی سرمایہ دار ریاستوں یا عالمی ساہو کاروں نے بلیک لسٹ کر رکھا ہے، ان ملکوں کو ظالم ، آمر اور انسانی حقوق کے دشمن جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں ان ملکوں پر اس قدر بین الاقوامی پابندیاں ہیں کہ عملا ان کا دانہ پانی تک بند کردیا گیا ہے۔ان ممالک میں کیوبا ، شمالی کوریا ، شام اور دیگر لاطینی امریکی ممالک شامل ہیں، ان ممالک کا قصور یہ ہے کہ یہ دنیا میں انسانی دکھ اور درد کی اصل وجہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیتے ہیں۔اور یہ ممالک اس نظام سے خود کو اس قدر سختی سے دور رکھتے ہیں کہ جیسے کوئی ماں اپنے بچوں کو آگ سے دور رکھتی ہے۔۔
سرمایہ دار دنیا کہتی ہے یہ سوشلسٹ ممالک عوامی آزادی کے دشمن ہیں عوام کو جدت سے ناآشنا رکھنا چاہتے ہیں۔۔مغرب، سوشلسٹ کے لفظ کو گالی کی طرح پیش کرتا ہے۔
ہم اس تحریر میں فہیم کی خودکشی پر ہی بات کررہے ہیں لیکن یقین جانیں کہ صرف یہ بات کرنا بالکل بیکار ہوگی جب تک پس پردہ اصل وجوہات اور مقامی اور بیرونی قصور واروں کو آشکار نہ کردیں۔۔
مغرب یہاں تک تو بالکل ٹھیک کہتا ہے کہ یہ ان ممالک۔کے عوام کو وہ سہولیات حاصل نہیں جنہیں تعیشات میں شمار کیا جاتا ہے، البتہ بنیادی ضروریات وہاں نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ بنیازی ضروریات کے شعبوں کو وہاں تاجروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں دیا ہی نہیں جاتا۔۔تاکہ اشیائے ضرورت عوام کے استحصال کا آلہ نہ بن جائیں اور سرمایہ دار ان سے اپنی جھولیاں نہ بھرنے لگیں ، اور اسی بات سے مغرب ان ممالک سے چراغ پا رہتا ہے کہ وہ ان شعبوں کو پرائویٹائز کیوں نہیں کرتے٫کیوں وہ ساہوکاری نظام کا حصہ بن کر عوام کے پیسے سے مغربی معیشتوں کو خراج نہیں دلواتے ؟ یہی بہت بڑا جرم ہے ان ریاستوں کا۔۔
یہاں ہم اس سوال کا جواب تلاش کررہے ہیں کہ پاکستان کی ریاست ماں کے جیسی کیوں نہ رہی؟ اسی بات کو بیان کرنے کیلیے ہمیں سرحدوں کے پار جانا۔پڑرہا ہے اور ساتھ ہی آگے چل کرتھوڑا ماضی میں بھی جھانکنا ہوگا۔۔
میں کوئی سرخا یا سوشلسٹ نہیں ہوں لیکن مجھے یہ بات اب بہت اچھی طرح سمجھ آرہی ہے کہ عوام مفاد کے شعبوں پر ریاست کا کنٹرول کتنا ضروری ہے اور ریاست کی رٹ کے نفاذ کیلیے سخت اقدامات کی کس قدر اہمیت ہے۔
سوشلسٹ ممالک، سرمایہ دارانہ ممالک کی جانب سے بعض مہربانیوں کی پیشکشوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کا مطلب ابھی طرح سے جانتے ہیں۔۔مثال کے طور پر ان کےملک میں سرمایہ کاری کی پیشکش۔۔لیکن کچھ شرائط کے بدلے۔۔یہ شرائط کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ اگر مان لی جائیں تو ریاست کو اپنا ماں کا روپ بدلنا پڑتا ہے۔۔مثال کے طور پر سرمایہ کار ملک کہے گا کہ میری کمپنی آپ کے ملک میں بچوں کے دودھ کا کارخانہ لگانا چاہتی ہے ، جس کے بدولت آپ کے ملک میں دو ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا، اور ہم آپ کے ملک میں ٹیکس بھی ادا کریں گے جس سے آپ کی معیشت کو بھی سہارا ملے گا،کتنا اچھا ہوگا نا! بس آپ کو کرنا یہ ہوگا کہ آپ کی حکومت کی سرکاری سرپرستی میں جو دودھ کا کارخانہ چل رہا ہے اسے پرائیویٹائز کردیں تاکہ ہمارا کارخانہ مقابلے کی فضا میں کام کرسکے،کیونکہ سرکاری کارخانہ زرتلافی کے ساتھ دودھ نہایت سستا فروخت کررہا ہے اور ایک پرائیویٹ کمپنی جو منافعے کیلیے کام کرتی ہے وہ سرکاری کارخانے کے ریٹ کا مقابلہ کیسے کرے گی ۔۔
اگر کوئی ریاست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لالچ میں اس شرط کو مان جائے تو یہ ریاست ماں کا پہلا وار ہوتا ہے جو اس نے عوام پر کیا ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھنے لگتا ہے اور پرائیوٹائزیشن کا عمل ہر شعبے تک پھیلنے لگتا ہے۔
بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوجاتی،پھر غریب ملک کو اس کی کرنسی سے اپنا کنٹرول ختم کرنے کا کہا جاتا ہے،اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کنٹرول کی وجہ اپ کی برآمدات نہیں بڑھ پا رہیں ، غیر ملکی سرمایہ کاری بھی محدود ہے ، اس لئےآپ اپنی کرنسی کو ڈالر یا کسی بڑی کرنسی سے لنک کردیں تو آپ عالمی تجارتی نظام کا حصہ بن جائیں گے۔۔
اس طرح مطالبات کی یہ فہرست طوہل تر ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ان ملکوں کی معاشی خودمختاری کو ہدف بنایا جاتا ہے، ایسے معاہدے کرائے جاتے ہیں کہ خودمختاری گروی رکھنا پڑے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ یہ ممالک عملا عالمی ساہو کاروں کے غلام بن جاتے ہیں۔۔بدقسمتی ہم پچھلے تیس سالوں میں اپنے ملک میں یہ سب سانحات ہوتے دیکھ چکے ہیں۔
ہم نے شروع میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ ریاست پاکستان ماں کے جیسی کیوں نہ رہی؟ تو دوستو اس کی بھی وجوہات کچھ ایسی ہی ہیں ترقی اور خوشحالی کیلئے ہم نے جس سرمایہ دارانہ نظام کو چنا، آج وہ ہمارے گلے کا طوق بن گیا ہے،اور کبھی کبھی اس نظام کے متاثرہ لوگ اپنے گلے میں ہی پھندہ ڈال بیٹھتے ہیں۔فہیم نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔۔
معاشی غلامی کی یہ کہانی 1990 سے شروع ہوتی ہے۔مغرب کے نظام کو اپنانے کے شوق میں ہم نے اپنی کرنسی کا کنٹرول چھوڑ دیا اور اسے ڈالر سے لنک کرنے کا فیصلہ کیا۔۔
اس سے بڑی خود فریبی کیا ہوگی کہ سائنسی اور صنعتی ترقی اور نظام معیشت دو الگ الگ شعبے ہیں لیکن ہمیں پٹی یہ پڑھائی گئی کہ ترقی کی وجہ آزاد منڈی والا سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے۔حالانکہ کوئی سادہ لوح انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ سائنسی اور صنعتی ترقی کی وجہ تعلیم ہے، جبکہ معاشی نظام کسی خطے اور قوم کے جغرافیہ ، وسائل اور ضروریات کی روشنی میں ترتیب دیا جاتا ہے۔
خیر ۔۔ بات یہ ہورہی تھی کہ پاکستان میں کرنسی ، ڈالر سے لنک کرتے ہی اگلے کچھ گھنٹوں میں پندرہ فیصد ڈی ویلیو ہوگئی،یعنی ڈالر کا ریٹ 12 روپے سے یکدم 14 روپے ہوگیا،اس پر ہمیں تسلی دی گئی کہ گھبراؤ نہیں،اگے دیکھو کیا ہوتا ہے، اور پھر اس بات کو دو سال بیت گئے۔ڈالر اب 25 روپے کا ہوچکا تھا۔
یہاں میں اپ کو ایک دلچسپ بات بتانے جارہا ہوں کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام پر ہی یقین رکھتی ہے،اس طرح سے وہ لاکھ اپنے منشور الگ الگ انداز سے پبلش کرالیں ان کی پالیسیوں میں حقیقتاً کوئی فرق نہ ہوگا۔اور ایسا ہی ہے۔۔بلکہ یہاں یہ بات بھی کہہ کر آگے بڑھا جائے کہ ہماری کسی سیاسی جماعت کے پاس اپنا کوئی ریاستی معاشی نظام موجود ہی نہیں ہے۔۔
خیر سرمایہ دارانہ نظام سے جڑنے کی وجہ سے ایک طرف تو ہم سے کرنسی کا کنٹرول ختم کرایا گیا اور پرائیوٹائزیشن کا اندھا دھند سلسلہ شروع کرایا گیا،ساتھ ہی ہمیں یہ ترغیب بھی دی گئی کہ اب عالمی مالیاتی اداروں سے بھی رجوع کیا جائے تاکہ ہم اس امداد سے اپنے معاشی اہداف بھی حاصل کرسکیں،یہ ایک اور بڑا وار تھا۔جس کے منفی نتائج سے آج پاکستان کا تقریباً ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔
ان مالیاتی اداروں کی نظریں ہمیشہ عوام کی جیب پر ہی رہیں کہ کیسے ان سے ٹیکسز ، سبسڈیز کے خاتمے اور دیگر ہتھکنڈوں کے زریعے رقم نکلوا کر قرض کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کو یقینی بنایا جاسکے۔عوام کی جیبوں سے رقم نکل کر مغربی ساہوکاروں کی جیبوں میں جانے لگی۔مڈل کلاس کی تعداد میں کمی آئی ،لوئرمڈل کلاس کی تعداد بڑھی اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ لوئر مڈل کلاس غربت کی لکیر میں داخل ہوگئی اور یوں تیزی سے ایک دو نہیں لاکھوں کروڑوں فہیم پیدا ہونے لگے۔
دوستو۔معاشی تباہی کے اس عمل میں کئی ذیلی عوامل بھی کارفرما ہوگئے،جن میں قانون کی عدم عمل داری اور کرپشن بھی پیش پیش تھے۔
دوستو پھر ہوا یوں کہ ریاست ماں کے جیسی نہ رہی،تمام دعوے کھوکھلے ہونے لگے ۔۔ ماں کی آغوش اب ایک تپتی زمین بن چکی تھی۔
ہم نے شروع میں یہی سوال اُٹھایا تھا کہ ریاست ماں کے جیسی کیوں نہ رہی ؟ اس کی کچھ وجوہات جو سامنے آئیں ان میں سے بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام سے جڑنا سمجھ میں آتی ہے،ورنہ ان غریب ملکوں میں،جن کا ذکر ہوا،غربت کے باوجود ایسی نفسا نفسی کیوں نہیں ہے؟ کیوں وہاں عوام ان معاملات کیلیے پریشان نہیں ہوتے جن کا زمہ ریاست اٹھا چکی ہے۔وہ ماں امیر تو نہیں لیکن عوام کو بھوکا نہیں مرنے دیتی،جو عوام سے منافع نہیں لیتی،جہاں بچے غریب سہی مگر پیدائشی مقروض نہیں ہوتے،اور ان کی غربت کو غربت کہنا بھی شاید ان کی توہین ہی کہلائے گی کیوں کہ وہاں بنیادی سہولتیں تو ان کو میسر ہی ہیں اور رہی تعیشات کی بات۔تو حقیقت یہ ہے کہ ان تعیشات سے دور رہنا ہی بھلا۔۔۔(شعیب واجد)