tarjuma karne ka fun

ماہ محرم اور۔۔اردو

تحریر: رضاعلی عابدی۔۔

یہ سنہ ساٹھ اکسٹھ کی بات ہے، میں روزنامہ جنگ ،راولپنڈی سے وابستہ تھا۔ شوکت تھانوی مرحوم ہمارے ایڈیٹر تھے۔ دفتر کے لڑکے کبھی کبھی انہیں گھیر لیا کرتے تھے اور ان سے طرح طرح کے سوال کرتے تھے۔ایک بار انہوں نے شوکت تھانوی صاحب سے پوچھا کہ اپنی اردو کیسے بہتر بنائیں۔شوکت صاحب تو لکھنؤ کی دھلی دھلائی ، پاک و پاکیزہ اردو کے صاحب قلم تھے(حالانکہ ہمیشہ سے بے حد باریک نوک والی پنسل سے لکھا کرتے تھے)جب ان سے پوچھا گیا کہ اپنی اردو زبان کیسے بہتر بنائیں تو انہوں نے ایک فقرے میں ساری بات کہہ دی۔ بولے کہ میر انیس کے مرثیے پڑھا کرو۔سچ پوچھئے تو ہم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں میر انیس اور مرزا دبیر کے مرثیے اور نجم آفندی کی نوحے رچے بسے تھے۔میں چھوٹا سا لڑکا تھا اور ہر مجلس میں مجھ سے رباعیاں پڑھوائی جاتی تھیں۔ گھر میں خواتین کی مجلسیں ہوتی تھیں جن میں میری والدہ حدیث پڑھتی تھیں اور بہنیں مرثیہ خوانی کرتی تھیں۔یہ سب ہمارے کانوں میں پڑتا رہتا تھا۔ میرے شہر روڑکی کے چھوٹے سے مگر پرانے امام باڑے میں ذاکر آتے تھے جو تقریر کیا کرتے تھے۔ کچھ سمجھ میں آتی تھی، کچھ نہیں آتی تھی مگر اسے سننا ہمارے فرض میں شامل تھا۔یہ تو ہوئی زبان کی تربیت جو بہت ہی کم سنی میں شروع ہوجاتی تھی۔اس کے علاوہ محرم اور عزاداری سے لگی ایک تہذیب بھی تھی۔ وہ رکھ رکھاؤ، وہ ادب و آداب،مجلس کے اپنے آداب، آنے جانے والوں کے مراتب کا خیال رکھنا، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ پیش آنے کے ڈھب، یہ سب ہماری تربیت کا حصہ تھے۔

مگر زبان اور شعر و سخن کی جیسی تربیت ایام عزا میں ہوتی تھی او ریقین ہے کہ اب بھی ہوتی ہے ا س کا کوئی نعم البدل نہیں۔وہ بنیادی تربیت ہوتی ہے جو تمام عمر ہمارے ساتھ ساتھ لگی رہتی ہے۔عزاداری کا ایک اور پہلو غور طلب ہے وہ یہ کہ مجالس میں ذاکر حضرات جو تقریر کرتے ہیں وہ ساری کی ساری واقعہ کربلا تک محدود نہیں ہوتی بلکہ مصائب اہل بیت آخر میں پڑھے جاتے ہیں، اس سے پہلے تقریر کا بڑا حصہ علم و دانش ، حکمت و آگہی کے لئے وقف ہوتا ہے۔ اس دوران ذرا غور کریں تو منطق اور دلیل کی باریکیاں سمجھ میں آتی ہیں جو کبھی لا شعوری طور پر اور کبھی عمداًسامع کے ذہن میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔

میر انیس ، مرزا دبیر اور نجم آفندی کا ذکر آیا تو یہ لکھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ مرثیے کے سلسلے میں بہت کام ہوا ہے اور جدید و قدیم کلام جمع ہوچکا ہے اور بڑی صحت اور عمدگی کے ساتھ چھاپ دیا گیا ہے۔ انیس اور دبیر کے منتخب مرثیے آسانی سے دستیا ب ہیں۔ جہاں تک نجم آفندی کا تعلق ہے ، انہوں نے بے مثال نوحے کہے ہیں۔ میری کم سنی کے دنوں میں ان کے نوحوں کا مجموعہ ’’بیاض غم ‘‘کے نام سے ہم لڑکوں کو دے دیا گیا تھا اور ہم وہ مقبول نوحے پڑھا کرتے تھے جن میں جدید شاعری کی نمایاں جھلک نظر آتی تھی۔ مثال کے طور پر :

سجدے سے سر کسی کا اٹھا، روشنی ہوئی

عشرے کی صبح آئی قیامت بنی ہوئی

وہ سامنے حسین کے میدانِ کربلا

کانوں میں وہ اذاں علی اکبر کی دی ہوئی

اسی طرح ان کا ایک نوحہ آج تک یاد ہے جس میں امام حسینؓ کی بہن حضرتِ زینبؓ کے دو نو عمر بیٹوں کے میدان جنگ میں اترنے کا منظر ہے:

زینب کے دلارے ہیں، زینب کے دلارے ہیں

کس شوق سے چاہت سے مقتل کو سدھارے ہیں

ہیں چاند سی شکلیں بھی، انداز بھی پیارے ہیں

گیسو کسی بی بی کے ہاتھوں نے سنوارے ہیں

زینب کے دلارے ہیں

ڈر تھا کہ نجم آفندی کہیں گم نام نہ رہ جائیں،کینیڈا کے ڈاکٹر تقی عابدی نے ان کا لکھا ہوا ایک ایک مصرع یک جا کرکے ان کی کلیات شائع کردی۔ بڑا کام کیا۔ ان کا کہا ہوا ایک اور نوحہ تھا: شبیر کا ماتم چاند میں ہے، شبیر کا ماتم تاروں میں حقیقت یوں ہے کہ یہ ماتم کہاں نہیں ہو تا لیکن دنیا کے ہرگوشے اور ہر علاقے میں لوگ اپنی اپنی طرح مناتے ہیں۔ ہم ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ہر سوگوار کا اپنا انداز،اپنا طریقہ ہے۔ مجھے نو عمری میں کئی بار یوپی میں پٹھانوں کے شہر خورجہ میں یوم عاشور منانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں بھی وہی روایتی ماتمی جلوس نکلتا تھا۔ اس جلوس کے آگے آگے ایک شہنائی نواز چلا کرتا تھا جو اپنی شہنائی پر کسی نوحے کی طرز بجایا کرتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ خورجے والوں کی اپنی اختراع ہے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ شہر بنارس میں ہندوستان کے سب سے بڑے شہنائی نواز استاد بسم اﷲ خاں محرم کے جلوس کی راہ میں ننگے سر ننگے پاؤں کھڑے ہوکر اپنی شہنائی پر ایک نوحے کی طرز بجایا کرتے تھے۔ اس روز ان کی شہنائی سننے کے لئے دور دور سے لوگ آتے تھے۔اپنے ایک انٹرویو میں بسم اﷲ خاں اس بارے میں بات کرتے کرتے گلو گیر ہوگئے۔ یہ عالم تھا ان کی عقیدت کا۔ سوچتا ہوں کہ بنارس کی کسی شاہراہ کے کنارے اتنا بڑا فن کارجب کربلا میں قافلہ حسینی پر ٹوٹنے والی آفت کی داستان اپنی شہنائی کی زبان میں کہتا ہوگا تو اس کے سروں میں کس غضب کی تاثیر ، کس بلا کا سوز اور کس شدت کا درد ہوتا ہوگا۔ تصور کرنا مشکل نہیں۔ٖآپ بھی کرکے دیکھئے۔ (بشکریہ جنگ)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں