تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،کراچی میں جب بھی بارش ہوتی ہے، اخلاق احمد مرحوم کا گایا یہ ہٹ سانگ۔۔ ساون آئے، ساون جائے۔۔بہت یاد آتا ہے۔۔ لیکن حیرت انگیزطور پر پورا کراچی ’’غیراخلاقی‘‘ طور پر’’مابعدالبرسات‘‘ معاملات پر جب تبصرہ کرتا ہے تو پھر یقین کریں ، ساون ،برسات یا بارش کا سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔۔ بڑے شہروں میں جب برسات ہوتی ہے تو لوگ انجوائے کرتے ہیں، کراچی والے ٹینشن میں پڑجاتے ہیں کہ اب بجلی غائب ہوگی، سڑکوں پر پانی کھڑا ہوگا، بدترین ٹریفک جام ہوگا، گٹر ابلیں گے، نالے جام ہوجائیں گے۔۔کرنٹ لگنے سے معصوم شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔۔ یہ سب کچھ ہر بارش کے بعد ہوتا ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں کہ ان مسائل کا تدارک بھی کیا جائے۔۔۔محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے عین مطابق پیر سے کراچی میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔۔اورایک ہفتے جاری رہنے کا امکان ہے۔۔ اس سے پہلے کراچی میں گرمی کی شدت کا یہ حال تھا کہ ۔۔ غریب آدمی کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے بھی پسینے کی وجہ سے کڑک کاٹن کے بن جاتے ہیں۔کپڑوں پر بارش پہلے ہوتی ہے ان پر بادل بعد میں نظر آتے ہیں۔جبین نیاز پسینوں سے زمین پر سجدے کے نشان چھوڑ کر بندگی کا حق ادا کرتی ہے۔ مومن ہو یا کافر اس موسم میں ہمہ وقت باوضو رہتا ہے۔کافر نگاہیں ٹھنڈی ٹھنڈی زلفوں کی چھاؤں تلاش کرنے لگتی ہیں۔
اس سے بڑا لطیفہ کیا ہوگا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش کی پیشگوئی کی خبر پر حکومت سندھ اور بلدیہ کراچی نے ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کردیں اور برساتی نالوں کی صفائی کی تصویریں بھی جاری کردیں۔ کیا ایک دن میں تمام برساتی نالوں کی صفائی ممکن ہے۔یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بعض فصلوں کے لیے یہ بارش آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے مگر یہ بھی مستند حقیقت ہے کہ حشرات الارض خاص طورپر مچھروں کے لیے بھی یہ اکسیر کا حکم رکھتی ہے گویا دونوں فصلوں کی پیداواراسی بارش کا فیضان ہے۔بارشوں سے گلیا ں تو جل تھل ہو ہی جاتی ہیں ، سڑکیں بھی سیلابی نظر آتی ہیں۔ پیدل، (عقل سے نہیں) چلنے ولا بہ امر مجبوری سڑکوں پر چلے گا کیونکہ فٹ پاتھ تو پہلی ہی بارش میں گدھے کے سرسے سینگ کی طرح غائب ہوجاتی ہیں۔ اب ہوتا یہی ہے کہ ہر پیدل چلنے ولا آنے جانے والے ٹریفک کو بھی راستہ دیتا ہے اور خود بھی زبانی ہارن دے کر پاس کرتا ہے۔ بارش کے موسم میں متوسط طبقہ جلدی جلدی گھر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھیں کمرے کی چھت سے کتنے آبشار بہہ رہے ہیں۔ رہ گئے امراء تو فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ گھر سے نکلے تو کار، دفتر سے نکلے تو کار، اگر خراب ہوگئی تو بے کار، عموماً اس طبقے کے لوگ بارش میں بھیگنے کو ترستے ہیں۔ہمارے ہاں جو موسم پسند کیا جاتا ہے مغرب والے اس سے نفرت کرتے ہیں اور ہمارے ہاں برسات ،بادل اور بارش کا سن کر حیران ہوتے ہیں کیوں کہ وہاں کے لوگ سورج کی روشنی کو ترستے ہیں اس لیے اس موسم میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جب کہ ہمارے ہاں اس موسم میں رومانس کا احساس جاگتا ہے۔ہجرو فراق اور مسرت و شادمانی کے شعر کہے جاتے ہیں۔گزشتہ سال تو لاہور میں اتنی زیادہ بارش ہوئی کہ پیرس دھل گیا اور نیچے سے لاہور نکل آیا۔۔
لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی ’’موسموں کا شہر‘‘ میں فرماتے ہیں۔۔ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کا بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا ‘‘رش’’ لیتا ہے۔وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی ‘‘روپیہ’’ کی طرح بہا یا جاتا ہے۔۔۔یادگار کے پاس ایک لہوری دوست اپنے دوست کو اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ میں نے بیس سال میں ایک بات نوٹ کی ہے۔۔ دوست نے پوچھا ، وہ کیا؟؟۔۔ پہلا دوست کہنے لگا۔۔ جب بھی لاہور میں سیاہ بادل آتے ہیں ، برستے ضرور ہیں۔۔ہم نے لاہور میں جتنی برسات دیکھی وہ کراچی میں اب تک نہیں دیکھی۔۔کراچی میں تو کبھی ’’اتفاق‘‘ سے سیاہ بادل آبھی جائیں تو صرف ’’غرارے‘‘ کرکے چلے جاتے ہیں۔۔یا پھر ’’نامعلوم افراد‘‘ کی طرح مشرق سے آکر مغرب کی طرف ’’روپوش‘‘ ہوجاتے ہیں۔۔
دو پاگل چھت پر سو رہے تھے کہ اچانک بارش ہو گئی۔۔ایک پاگل نے اٹھ کر دوسرا سے کہا۔۔چل اوئے اندر چل، آسمان میں سوراخ ہوگیا ہے۔۔دوسرے پاگل نے آنکھیں کھول کر ابھی پہلے والے کو گھورا ہی تھا کہ اتنے میں زوردار آواز کے ساتھ بجلی کڑکی، بجلی چمکتے ہی، دوسرا پاگل کہنے لگا۔۔ چل یار سوجا، ویلڈنگ والے بھی آگئے ہیں۔۔برسات کے حوالے سے برصغیر پاک و ہند میں کئی سپرہٹ گانے معرض وجود میں آئے ہیں اور آج بھی بارش کے موقع پر کچھ منچلے اونچی آوازمیں وہ گیت بجاتے ہیں۔۔ بارش کا موسم ہو یا بارش ہو، کراچی والوں کی واحد تفریح ساحل سمندر پہنچنا ہوتا ہے۔۔ لیکن بارش کے بعد تو گلی گلی،سمندر بہہ رہا ہوتا ہے۔۔برسات کی ایک خوبصورت رات میں شبنم سے بھیگتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔۔انّی دیا! ٹکراں تے نہ مار!
اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔اللہ سے دعا ہے ہم انسانوں کو موسم برتنے کی صلاحیت دے ہر موسم حسین ہے اگر ہم میں اسے سلیقے سے گزارنے کا ہنر ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔