تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،کورونا کی چوتھی لہر عروج پر ہے۔۔ لاک ڈاؤن، ماسک، سینٹی ٹائزر، ڈیلٹا، کورونا۔۔ ایسے الفاظ سن سن کر کان پک چکے ہیں، بلکہ دماغ تک پک چکا ہے۔۔ لاک ڈاؤن میں کسی کا کاروبار چلے نہ چلے،پولیس کی پیداگیری عروج پر ہے۔۔ گھسا پٹا لطیفہ ہے کہ کوئی صاحب نصف شب کو گھر جارہے تھے، ناکے پر پولیس نے روک لیا، ایک اہلکار نے کہا، منہ سونگھاؤ، کار سوار نے کہا، پہلے آپ سونگھاؤ۔۔پولیس والے نے کہا۔۔چلو جاؤ۔۔ اب ناکے پر ویکسی نیشن کارڈ مانگے جارہے ہیں، جب ان سے الٹا سوال کیا جائے کہ آپ کا کارڈ کہاں ہے تو وہ غصہ کرجاتے ہیں۔۔اگر موٹرسائیکل پر ہیلمٹ ایک عام شہری کے لئے لازمی ہے تو کیا ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کے لئے موٹرسائیکل پر ہیلمٹ ضروری نہیں ہوتا؟؟ جب حکومت کا حکم ہے کہ کوئی بھی شہری سڑک پر آئے تو ویکسی نیشن کا نادرا سرٹیفیکٹ یا ویکسی نیشن کارڈ جیب میں رکھے گھر سے باہر نکلے تو کیا ناکوں پر شہریوں کو روک،روک کر پوچھنے والے پاکستانی شہری نہیں؟ کیا حکومت کا ان پر حکم لاگو نہیں ہوتا؟؟صورتحال عجیب ہی نہیں بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
لاک ڈاؤن کے اثرات شہریوں کے ذہنوں پر منفی پڑرہے ہیں۔۔لاک ڈاؤن کے دنوں میں ایک گھر میں محفل سجی، ان کے پیر صاحب آئے تھے تو علاقے کے دیگر مریدین کو بھی اطلاع کردی گئی کہ آجائیں اور پیر صاحب کا دیدار کر لیں۔۔ پیرصاحب نے جب دیکھا کہ مریدین کی بھیڑ اکٹھی ہوگئی ہے تو ان کا دل چاہا کہ ہلکاپھلکاخطاب ہی کرلیا جائے۔۔چنانچہ انہوں نے اپنی کرامات سے آغاز کیا۔۔کہنے لگے۔۔ میں صحرا میں جا رہا تھا چلتے چلتے دو دن گزر گئے تھے۔ بھوک لگتی تو ہاتھ بڑھا کر اڑتا ہوا کوئی پرندہ پکڑ لیتا اور سورج کی روشنی پر بھون کر کھاتا۔ خداکا شکر ادا کر کے آگے چل پڑتا۔ تیسرے دن مجھے نماز کا خیال آیا تو پانی ختم ہو چکا تھا۔ میں نے ایک جھاڑی دیکھی اس کے پاس جا کر زمین سے مٹھی بھر ریت اٹھائی تو اس کے نیچے سے پانی کا چشمہ نکل آیا۔ میں پینے لگا تو خیال آیا کہ یہ جھاڑی پیاسی ہے پہلے اسے پانی پلاوں۔ چلو بھر پانی اس کی جڑ میں ڈالا تو وہ درخت بن گئی۔ اس کے سائے میں نماز ادا کرنے کا سوچا وضو کے لیے چلو میں پانی لیکر کلی کی تو جہاں جہاں پانی گرا گلاب کے پھول کھل گئے۔ چہرے پر پانی ڈالا تو پانی کے قطرے زمین پر گرنے کے بجائے ہر قطرہ ایک لال رنگ کا طوطا بن کر درخت کی ٹہنی پر بیٹھ گیا اور میرے مریدوں کے لیے دعا کرنے لگا۔ مرید جو جھوم جھوم کر سن رہے تھے ان میں سے ایک بولا۔۔ پیر صاحب لال رنگ کا طوطا۔۔۔پیر صاحب نے غضب ناک انداز میں اس کی طرف دیکھا تو۔۔ ساتھ بیٹھے بندے نے کہا۔۔۔چپ کر اوئے،یہاں باقی کام بڑا سائنس کے اصول کے مطابق ہو رہا ہے جو تجھے طوطے پر شک ہے۔۔
ایک نئی تحقیق میں طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کافی پینے سے کورونا وائرس کا شکار ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔امریکی سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ روزانہ کافی کا ایک کپ پینے سے مہلک وبا کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے 40 ہزار برطانوی نوجوانوں پر تجربہ کیا جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کافی کا ایک کپ ہر دس میں سے ایک فرد کو کووڈ-19 سے بچانے کے لیے مفید ہے۔اس حوالے سے سائنسدانوں کا مزید کہنا تھا کہ کافی میں کچھ ایسے اجزاء موجود ہیں جو انسانی صحت کو بہتر کرنے اور مدافعتی نظام کو طاقتور بناتے ہیں۔تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سبزی کے استعمال سے بھی کووڈ-19 سے بچا جاسکتا ہے۔ تاہم چائے اور پھل اس حوالے سے مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ علاوہ ازیں پروسسنگ فوڈ، جس میں قیمہ اور سینکا ہوا گوشت شامل ہے، کے استعمال سے بیمار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔سائنسدانوں کی اس تحقیق تجربے کے نتائج سائنسی جریدے نیوٹرینٹ کی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ہیں۔
اب باباجی کا سروے بھی سن لیں۔۔ فرماتے ہیں۔۔ایک سروے کے مطابق 30 فیصد شوہر اپنی بیگمات سے پریشان ہیں اور باقی %70 نے بیوی کے خوف سے سروے میں حصہ ہی نہیں لیا۔۔باباجی کے ہی ایک اور سروے کے مطابق ہماری مائیں تو اتنی زیادہ نرم دل ہیں کہ چلتے ہوئے پنکھے کو بند کر کے کہتی ہیں۔۔وے اس وچارینوں وی سا لین دیو۔۔۔باباجی کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کو سمجھانے کے لئے دو بندے ہونے چاہئیں ایک تفصیل سے بات سمجھاتا رہے اور دوسرا ساتھ ساتھ چپیڑیں مارتا رہے۔۔کہتے ہیں کہ کالی بلی کسی کا راستہ کاٹے تو یہ نحوست کی علامت ہوتا ہے، ایک روز ایک کالی بلی نے باباجی کا راستہ کاٹ دیا تھوڑی دور جاکروہ بلی گٹر میں جاگری۔۔باباجی اب کوئی کام دھندا نہیں کرتے، اللہ نے انہیں اتنا دیا ہے کہ گھر بیٹھے کھاتے ہیں کچھ کماتے وغیرہ نہیں۔۔ایک روز باباجی بتانے لگے کہ۔۔پہلے میرا کام کرنے کو دل نہیں کرتا تھا پھر میں نے محنتی لوگوں کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا اب ان کا بھی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔۔باباجی لاک ڈاؤن کے دنوں میں سوچ بچار بہت کرنے لگے ہیں۔۔ ایک روز ہم سے پوچھنے لگے کہ۔۔ پوچھنا یہ تھا کہ سرسوں کا تیل دو دن پڑا رہے تو اسے پرسوں کا تیل کہہ سکتے ہیں۔۔کچھ ہی دیر بعد ایک اور سوال کرڈالا۔۔لوگ کہتے ہیں کہ گھر اعتبار اور رشتوں سے بنتے ہیں تو پھر سیمنٹ اور بجری سے پکوڑے بنتے ہیں کیا؟
رات کے ایک بجے داداابو نے کہا، بیٹاروٹی پکادو،بھوک لگی ہے۔۔ میں روٹی اور انڈہ پکا کر لایا تو دادا ابا نہیں ملے اور نہ ان کی چارپائی۔ پھر دادی اماں کو جگا کر پوچھا کہ دادا ابو کہاں ہیں؟کہنے لگیں کہ تیرا دماغ تو خراب نہیں، تیرے دادا تو تیری پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔پھر میں نے دادی اماں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور برتن کچن میں رکھ کر سو گیا۔ صبح اٹھا تو نانی اماں نے پوچھا کہ رات کس سے باتیں کر رہے تھے؟ میں دادا ابا والی بات گول کرگیا اور بتایا کہ دادی اماں کو انڈہ بنا کر دیا تھا۔ نانی حیرت سے بولی کہ تمہاری دادی تو دس سال پہلے وفات پا چکی ہیں۔میں حیران ہو کر دادی کے کمرہ میں گیا تو دادی نہیں تھیں۔ واپس آیا تو نانی بھی نہیں تھیں۔پھر نوکرانی سے پوچھا تواس نے بتایا کہ آ پ کی نانی تو پچھلے سال وفات پا چکی ہیں۔میں روتا ہوا کمرے میں آ کر بیٹھ گیا۔ پھر یاد آیا ہماری تو کوئی نوکرانی بھی نہیں ہے۔۔کتاب، لاک ڈاؤن کے اثرات سے اقتباس۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کورونا سے ڈر نہیں لگتا صاحب، ویکسین سے لگتا ہے، منجانب پاکستانی عوام۔۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔