جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ لائیوکوریج کی اجازت دینا یا نہ دینا سپریم کورٹ کی صوابدید ہوتی ہے،نیب ترامیم کیس کی عوامی اہمیت ہے اسی لیے سپریم کورٹ نے اسے لائیو دکھانے کا فیصلہ کیا تھا، اس کیس کا ایک حصہ لائیو دکھایا جائے دوسرا حصہ نہ دکھایا جائے تو یہ تضاد ہے، فخر درانی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کوئی ڈیبٹنگ کلب نہیں کہ وہاں سیاستدان سیاسی تقریریں کریں، سپریم کورٹ کبھی بھی کسی سزایافتہ شخص کو سیاسی باتیں کرنے کیلئے اپنا پلیٹ فارم نہیں دے گی۔ رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہی کیسوں کی لائیو کوریج کی اجازت دی تھی، بنیادی طور پر سپریم کورٹ نے یہ ایشو بنایا ہے جس کی وجہ سے تنازع کھڑا ہوا، سیاستدانوں پر جتنے بھی کیسز چلے ہیں وہ سیاسی بات کرتے ہیں۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عمران خان لائیو کوریج میں غیرمتعلق بات کرتے ہیں تو سپریم کورٹ انہیں روک سکتی ہے، عدالت سیاسی مقدمات سنتی کیوں ہے، جب بھی آئینی عدالتوں کی بات آئے مخالفت آجاتی ہے، عمران خان کو ویڈیو لنک پر لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی کیا تھا، سپریم کورٹ شروع میں ہی فیصلہ کرلیتی کہ لائیو اسٹریمنگ نہیں ہوگی تو اتنی ہائپ نہیں بنتی، سپریم کورٹ کی تاریخ ہی پولیٹیکل پلیٹ فارمز کی رہی ہے، جسٹس عمر عطا بندیال، ثاقب نثار اور افتخار چوہدری کی عدالتیں دیکھ لیں۔