تحریر۔حمادرضا
آتے جاڑے کی نوید سناتی ایک خنک زدہ شام میں اس نے سبز چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے رسالے کو اب بند کر دوں سرکولیشن آٹے میں نمک کے برابر رہ گئ ہے کاغذ مہنگا ہو گیا ہے اب یا تو رسالے کے صفحات کم کر دیے جائیں نہیں تو اس کی قیمت بڑھانا پڑے گی موجودہ قیمت میں ہی اس کی سرکولیشن نا کے برابر ہے تو قیمت بڑھانے کے بعد کون خریدے گا اسے میں نے قدرے تؤقف سے ان کی طرف دیکھا جو ایک مشہور رسالے کے مدیر تھے اور بلا جھجک ان سے یہ کہہ دیا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ کو اپنا رسالہ بند کر کے اب اپنا بوریا بسترا گول کر لینا چاہیے تو وہ ہونقوں کی طرح میرا منہ دیکھنے لگے کے میں نے دیوار مرمت کرنے کے بدلے دیوار گرانے کا ہی مشورہ دے ڈالا ہے ان کی آنکھوں میں حیرانگی تھی میں نے ان سے عرض کی کہ آپ کا یہ رسالہ اپنے دور کا ایک مقبول ترین رسالہ رہا ہے اس نے عروج کا دور بھی دیکھا ہے اور اس دور میں آپ کو اس سے خاطر خواہ منافع بھی حاصل ہوتا ہو گا اور اگر عروج ہے تو کبھی زوال بھی آۓ گا لیکن اس کے برعکس آپ نے کبھی اپنے لکھاری کی حالتِ زار معلوم کرنے کی کبھی کوشش کی کہ وہ کن حالات میں آپ کے رسالے کے لیے لکھتا رہا اس کے کیا کیا مسائل تھے ؟ وہ آپ کے رسالے کے عروج کے وقت بھی زوال میں تھا اور آج بھی اس کا زوال ختم نہیں ہو سکا وہ کوئ شاہکار تخلیق کرنے کے لیے اپنی روزمرہ زندگی سے وقت نکالتا ہے اپنی محنت صرف کرتا ہے تخلیقی وقت کے دوران اسے اپنے بیوی بچوں کی آواز بھی ناگوار گزر رہی ہوتی ہے اور اس سارے تخلیقی عمل کو سر انجام دینے کے لیے اسے درجنوں کتب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے جو وہ پیسوں سے خریدتا ہے پھر پری رائٹنگ رائٹنگ اور پوسٹ رائٹنگ کا مرحلہ آتا ہے آپ مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پبلشر بھی ہیں آپ کو تو یہ بھی پتا ہو گا کہ فی صفحہ کمپوزنگ کا کیا مارکیٹ ریٹ ہے کوئ بھی لکھاری اپنی تحریر آپ کو مفت کمپوز کر کے دیتا ہے آپ کو ایک بنی بنائ تحریر مل جاتی ہے جو آپ کے رسالے کو سجاتی ہے اسے چار چاند لگاتی ہے اور بدلے میں اس لکھاری کو کیا ملتا ہے؟ اعزازیہ تو دور کی بات اسے رسالے کی اعزازی کاپی بھی نہیں دی جاتی وہ بھی الٹا اسے اپنی جیب ہلکی کر کے خریدنا پڑتی ہے اور آپ یہاں اپنے رسالے کی سرکولیشن کو رو رہے ہیں اس لیے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے رسالے کو بند کر دیں اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ نا ہو گا بانس اور نا بجے گی بانسری جب تک آپ لکھاریوں کی حوصلہ افزائ نہیں کریں گے تو نیا خون کبھی شامل نہیں ہو سکے گا انھی وجوہات کی بناء پر اکثر لکھاری لکھنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی وہ جگہہ کوئ دوسرا پر بھی نہیں کر پاتا کیوں کہ بعض لکھاریوں کا اسلوب نایاب ہوتا ہے میری باتیں سننے کے بعد مدیر صاحب کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلی ہوئیں تھیں میں نے اپنا موبائل اٹھایا تو سامنے ہی مشہور سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کی کسمپرسی کی خبر چل رہی تھی کہ کن حالات میں انہیں ہسپتال لے جایا جا رہا تھایہ سب دیکھ کر بے اختیار آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔(حماد رضا)۔۔