تحریر: ڈاکٹر طلعت شبیر۔۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہماری دنیا میں کائنات کے بارے میں لکھنے والوں کو کتنا بڑا کینوس میسر ہے۔ اگر لکھنے کا ہنر آتا ہو تو انواع و اقسام کے موضوعات، بے پناہ زاویے، بے انت اور اچھوتے اسلوب موجود ہیں جو فطرت کے اَن گنت رنگوں کی تشریح کرتے ہیں۔ تہذیب، ثقافت، روایت، ہزاروں زبانوں کا تنوع، سماجی ناانصافی اور عدم مساوات کی درد بھری کہانیاں، متوازی کائنات کا سفر، ماورائے عقل زندگی کا احوال، تصورات، افسانوی مخلوقات اور دریافت کے دائرے، رسوم و رواج، عقائد اور انسانی جدوجہد کی ہزاروں سال پرانی تاریخ اور پھر ہر لکھنے والے کا منفرد تخیل اور نقطۂ نظر قارئین کو دنیا کو نئے اور فکر انگیز زاویوں سے روشناس کراتے چلے جاتے ہیں۔ متنوع آوازوں اور زاویوں سے بھری دنیا میں لکھا گیا لفظ انسانی سماج کی ہنگامہ خیزی میں سکون کی مانند بھی ہو سکتا ہے اور سکون پر مائل سمندر میں ہلچل کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ لکھنے والے اپنے مشاہدے اور تجربے کے بل بوتے پر دنیا کو درپیش مسائل اور روز بروز رونما ہونے والے واقعات پر قلم آرائی کرتے ہیں تو مسائل کے ساتھ جڑے اہم پہلوئوں کی نشان دہی بھی کر رہے ہوتے ہیں یا کمپاس کے طور پر درست سمت کی جانب مدد اور راہ نمائی کر رہے ہوتے ہیں جو ان کے خیال میں ان کے قارئین کی طرف سے ان پر ایک ذمہ داری ہے۔
ملکِ عزیز بھی اپنی تاریخ اور ثقافت کے اعتبار سے لکھاریوں، دانشوروں، صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی بے پناہ توجہ کا مرکز رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں لکھی جانے والی اکثر تحریریں اور مضامین پاکستان کے پیچیدہ سماجی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کا احاطہ کرتے ہیں اور ہماری قومی زندگی کے بہت سے پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ کتب، مضامین اور تحریریں دراصل وقت کی تصویری جھلکیاں ہوتی ہیں جو اہم لمحات اور واقعات کو تاریخ کے اوراق میں تسلسل سے محفوظ کرتی چلی جاتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں محفوظ یہ واقعات پاکستان کے سفر کی کہانی کو بیان کرتے ہیں۔ یہ کہانی جب بھی بیان کی جاتی ہے تو سننے والوں کو مختلف آوازوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو تاریخ کے سچ کے بارے میں شکوک و شبہات کو بھی جنم دیتی ہے۔ لکھنے والے اپنے زاویے سے سیاست و حکمرانی کے چیلنجز سے لے کر مذہبی شناخت اور ثقافتی تنوع کے مسائل تک پاکستان کے سماجی اور سیاسی منظر نامے کی پیچیدہ گرہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ساری گتھیاں سلجھ نہیں سکتیں۔ پاکستان کے تناظر میں اہلِ فکر و دانش کی گفتگو میں انسانی حقوق، معاشی ترقی، مساوات اور تعلیم جیسے مسائل ایسی بحث کا موضوع ہو تے ہیں جو کسی بھی قوم کی جدوجہد اور ارتقائی عمل کا تصور پیش کرتی ہے لیکن شاید ہماری سمت ابھی کچھ دھندلائی ہوئی ہے۔ حال اور مستقبل کے حوالے سے لکھی جانے والی اکثر تحریریں زمانے کے تجربات کے نچوڑ کو سمیٹتی ہیں اورحقیقی منظرنامے کی جھلک پیش کرتی ہیں۔ یہ مضامین کاغذ پر لکھے محض چند الفاظ نہیں ہوتے بلکہ تیزی سے بدلتے حالات کی حقیقی تصویریں ہوتے ہیں۔ لکھنے والے معاشرے میں باہم مربوط پیچیدگیوں کو تلاش کرتے ہیں، اپنی تحریروں میں ان کا برملا اظہار کرتے ہیں اور اکثر مستقبل کے حوالے سے کچھ تجاویز بھی دیتے ہیں۔
جس طرح علم جامد نہیں ہوتا بلکہ ایک دریا کی مانند مسلسل بہتا رہتا ہے اِسی طرح گفتگو، مکالمہ یا تحریر بھی کسی بھی انسان کے فطری ارتقا کا باعث ہو سکتی ہے۔ سماجی موضوعات پر قلم آرا ہونے سے پہلے کسی بھی لکھنے والے کی تاریخ سے آگاہی بہت ضروری ہے اور تاریخ کے دھاروں کا رخ موڑنے والے واقعات کا علم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھی تحریر کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو سوال کرنے، غور کرنے اور عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اِسی لیے بعض اوقات تحریروں میں تلخیوں، کچھ درد بھری سچائیوں اور ایک غیر منصفانہ دنیا کا تصور بھی سامنے آ جاتا ہے۔ ایک ایسے دور میں جہاں سوشل میڈیا کی گہما گہمی میں اکثر اہم گفتگو کو غیر اہم گردانا جا سکتا ہے اور ایک فکر انگیز اور معقول تحریر کو بہ آسانی بے وقعت کیا جا سکتا ہے‘ لکھنے والوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ پیچیدہ اور تعصب انگیز بیانیوں کے اِس مشکل وقت میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ روشن خیالی کو اظہار کا ذریعہ بنایا جائے اور مکالمے میں اجتماعی افہام و تفہیم کے ذریعے ایک روشن، جامع اور خوبصورت دنیا کی تعمیر کی جائے جہاں اختلافِ رائے کو قبول کیا جائے اور لوگ مخالف نظریہ رکھتے ہوئے بھی باہم خوش و خرم رہ سکیں۔
تواتر سے لکھنے والے ادیب اور کالم نگار معاشرتی اور سماجی مسائل کو اپنی تحریروں کا موضوع اِ س لیے بناتے ہیں کہ سماجی مسائل پر لکھنے کا بنیادی اور بڑا محرک معاشرہ ہے اور تحریروں کے موضوعات معاشرے میں وقوع پذیر ہو نے والے واقعات سے لیے جاتے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ ان واقعات کی روشنی میں معاشرے میں رہنے والے ہر شخص کے شعورکو بیدارکیا جائے۔ معاشرتی اور سماجی مسائل کو زیرِ بحث لا کر آپ فکری مباحث کا آغاز کر سکتے ہیں اور اجتماعی طور پر لوگوں کو فکر و عمل میں شریک کر سکتے ہیں۔ یوں علم و آگاہی کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا ہو سکتا ہے۔ جو شخص انسانوں کو درپیش مصائب اور چیلنجز کاادراک کر ے گا اور اپنی تحریروں میں ان کے مسائل پر آواز اٹھائے گا، وہی شخص درحقیقت شفافیت، جوابدہی اور ذمہ دار حکمرانی کی وکالت کا علمبردار سمجھا جائے گا۔ ایک حساس لکھاری معاشرے کے پسماندہ اور کمزور طبقے کی کہانیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ وہ ان کے لیے ایک پلیٹ فارم کا کردار ادا کرتا ہے اور اپنی تحریروں کے ذریعے ان کو توانا آواز مہیا کرتا ہے۔
ہماری تاریخ کے حوالے سے یہ نکتہ بھی اہم کہ ماضی کے کچھ واقعات کی حقیقت کو مسخ کیا گیا اور ہم ان سے ایک اہم سبق نہ سیکھ سکے۔ فکر و عمل کی دوڑ میں سچ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ سچ محض ایک تصور نہیں ہے۔ یہ اِنسانی تہذیب کا ایک بنیادی ستون ہے اور علم کے حامل افراد کو بااختیار بناتا ہے۔ یہ فیصلہ سازی کے عمل کو شفاف بناتا ہے۔ سچ جہالت کے لیے تریاق، قوموں کی ترقی کی کلید اور معاشروں میں انصاف کی بنیاد ہے۔ سچ ایک آفاقی قدر ہے جو ثقافتی، سماجی اور سیاسی حدود سے ماورا ہوتی ہے، اسے معاشروں میں بھی ان حدود سے بلند ہی رہنا چاہیے۔ سچ ہی قوموں کے درمیان اعتماد کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سچائی وہ گوند ہے جو معاشرے کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے اور سچ کا فروغ افراد، اداروں اور معاشرے کی اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ معاشرتی اور سماجی مسائل پر لکھنے والوں کو نت نئے چیلنجز درپیش ہیں۔ نئی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی وجہ سے لکھنے والوں کے پاس پہلے سے کہیں زیادہ مواقع اور پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ جیسے جیسے معاشرہ متنوع اور جامع ہوتا جا رہا ہے ایسے ہی میڈیا ٹیکنالوجیز بھی مؤثر اور جامع ہوتی جا رہی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ لکھنے والوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سماجی مسائل پر لکھنے کا رجحان تشکیل پا رہا ہے اور یہ بات بھی طے ہے کہ میڈیا کے عروج سے لے کر متنوع آوازوں کی اہمیت تک اور غلط معلومات کے چیلنج سے لے کر کہانی سنانے کی طاقت تک آج کے لکھنے والے ایک منصفانہ معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اِس لیے جن لوگوں نے قلم کے ذریعے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ان کے لیے مسلسل لکھتے رہنا اور بامقصد لکھتے رہنا اشد ضروری ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔