تحریر: یاسرپیرزادہ۔۔
سال کے پہلے دن کا آغاز میں نے دیسی گھی کا پراٹھا کھا کر کیا ہے، انجام خدا جانے۔ جو بندہ یکم جنوری کو موٹیویٹ نہیں ہو سکتا اُس کا سال کے باقی مہینوں میں کیا حال ہوگا، یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل کام نہیں۔ دل تو میرا چاہ رہا ہے کہ میں رضائی اوڑھوں اور لمبی تان کے سو جاؤں، دو تین گھنٹے بعد اٹھوں، دال چاول کھاؤں اور پھر سو جاؤں۔ پھر اٹھوں تو کسی کیفے میں جاکر کافی پیوں، سگار کے کش لگاؤں، رات کو سونے سے پہلے کوئی فلم دیکھوں اور بالآخر ڈیڑھ دو بجے سہ بارہ سو جاؤں۔ اِس سارے منصوبےمیں مشکل مگر یہ ہے کہ میں نے آپ کو موٹیویٹ کرنا ہے کیونکہ سال کی شروعات ہے اور ایک لکھاری خود چاہے کچھ کرے نہ کرے، دوسروں کو موٹیویٹ ضرور کرتا ہے۔
سال کا پہلا مشورہ یہ ہے کہ دن میں کم از کم بارہ گھنٹے سوئیں، جب آپ بارہ گھنٹے بعد سو کر اٹھیں گے تو آپ کو لگے گا جیسے آپ دوبارہ زندہ ہوئے ہیں، یہ احساس بےحد اطمینان بخش ہوتا ہے۔ کبھی کبھار لمبی نیند کے بعد دوبارہ سونے کو بھی جی کرتا ہے، اِس میں بھی کوئی حرج نہیں، آپ مزید دو چار گھنٹے بھی سو سکتے ہیں، بالآخر بندے نے اپنی قبر میں بھی تو سونا ہی ہے، لہٰذا دنیا میں ہی اِس کی مشق کر لی جائے تو بہتر ہے، ویسے بھی اِس دنیا کے میلے تو کبھی ختم نہیں ہوں گے، آپ جاگیں یا سوئیں، دنیا یونہی اندھا دھند دوڑتی رہے گی، ایسی دنیا کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے بندہ اپنی نیند پوری کرے۔ سولہ سترہ گھنٹے کی نیند کے بعد جب آپ ہشاش بشاش اور چاق چوبند ہو کر اٹھیں گے تو خود کو بےحد موٹیویٹڈ پائیں گے، یہ وہ لمحہ ہوگا جب آپ خود میں سب کچھ کر گزرنے کی طاقت اور صلاحیت محسوس کریں گے، اِس لمحے آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے باقی کا دن کیا کھا کر گزارنا ہے؟ کچھ لوگ بیدار ہوتے ہی فوراً ورزش کرنے لگتے ہیں، یہ نہایت بدذوقی کی علامت ہے، ورزش کس وقت اور کیسے کرنی چاہئے اِس پر ہم بعد میں بات کریں گے، پہلے کچھ بات کھانے کی ہو جائے۔ ماہرین غذائیات، طبیب، حکما، ڈاکٹر سب متفق ہیں کہ صبح کا ناشتہ ڈٹ کر کرنا چاہیے۔ آپ جب دوپہر اڑھائی تین بجے سو کر اٹھیں گے تو ظاہر ہے کہ ناشتے کا وقت گزر چکا ہوگا بلکہ بیشترشرفا تو اس وقت تک دوپہر کا کھانا بھی کھا چکے ہوتے ہیں مگر آپ نے گھبرانا نہیں ہے، آپ کے لیے ناشتے کا وہی وقت ہے جب آپ بیدار ہوتے ہیں۔ اِس وقت کا بھرپور استعمال کریں اور مقوی ناشتے سے دن کی شروعات کریں۔ پائے، بونگ، نہاری، کلچے، چنے، کھد، یہ تمام چیزیں غذائیت سے لبریز ہوتی ہیں، آپ اِن میں سے کسی ایک یا د و کا انتخاب کرکے ناشتے کا آرڈر کر سکتے ہیں، خود کہیں جانے کی ضرورت نہیں، آج کل اِن کھانوں کی ’ہوم ڈیلیوری ‘با آسانی ہو جاتی ہے، آپ اپنے لحاف میں لیٹے لیٹے بھی کھد کلچے کھا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ کلچوں کو نان کے ساتھ کنفیوژ کر دیتے ہیں، یہ گناہِ صغیرہ کے زمرے میں آتا ہے، یہ لطیف نکتہ سمجھ لیں کہ کلچہ تِل والا ہوتا ہے اور قدرے سرخ ہوتا ہے جبکہ نان پر تِل نہیں ہوتے اور وہ نسبتاً نرم ہوتا ہے، دونوں کو چائے میں ڈبو کر بھی کھایا جا سکتا ہے، البتہ کلچے کو ڈبونا افضل ہے، نیز کلچے کے ساتھ خالص مکھن لگا کر کھانے کا مزا ہی الگ ہے، تاہم یہ کام اسٹارٹر کے طور پر کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔
لیجیے آپ ایک آئیڈیل دن کے آغازکے لیے تیار ہیں۔ اب بے شک خود کو بستر سے باہر نکال لیں، اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کو کھولیں، ایک آدھ مرتبہ ٹانگوں سے ہوا میں سائیکل چلائیں، بس ہو گئی ورزش، اِس سارے کام میں زیادہ سے زیادہ ایک سے دومنٹ صرف ہونے چاہئیں ورنہ آپ تھکاوٹ کا شکار ہو جائیں گے اورباقی کے آٹھ گھنٹے کچھ نہیں کر پائیں گے۔ جی ہاں آپ کا ٹارگٹ اب صرف آٹھ گھنٹے گزارنا ہے، ذرا سوچیں کہ ایک شخص جو علی الصبح بیدار ہوا تھا اُس نے دن میں سولہ گھنٹے گزارنے ہیں اور آپ نے فقط آٹھ، یہیں سے آپ کے اور اُس کے معیارِ زندگی میں فرق آ جائے گاکیونکہ سولہ کے مقابلے میں آٹھ گھنٹوں کا بلند معیارِ زندگی برقرار رکھنا پچاس فیصد زیادہ آسان ہے۔ سادہ حساب ہے۔ سال کا چونکہ آغاز ہے اِس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ نئے سال کی منصوبہ بندی میں تمام دن صرف کریں، خیال رہے کہ یہ دماغی کام ہے جس کے لیے ضروری ہےکہ آپ ساتھ ساتھ کوئی قوت بخش خوراک بھی لیتے رہیں، جو ناشتہ آپ نے کیا تھا وہ ورزش کے بعد ہضم ہو جائے گا لہٰذا اس کی فکر نہ کریں۔ کامل یکسوئی کے ساتھ نئے سال کا عہد نامہ تشکیل دیں۔ ویسے تو ہر شخص کا عہد نامہ مختلف ہوگا مگر کچھ اہداف بہرحال مشترک ہی ہوتے ہیں جیسے وزن کم کرنا، زیادہ پیسے کمانا، باہر جانا، وغیرہ۔بعض نادان لوگ یکم جنوری کو کچھ زیادہ ہی موٹیویٹڈ ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ امسال وہ تمام اہداف حاصل کرلیں جو وہ گزشتہ بیس برسوں میں حاصل نہیں کر پائے، ایسے لوگ نہایت نامعقول قسم کا عہد نامہ بناتے ہیں اور پھر اکتیس دسمبر کو روتے ہیں کہ اب کی بار بھی کچھ نہیں کر پائے۔ لہٰذا آپ کے لیے میرا یہ مشورہ ہے کہ نئے سال کے موقع پر ایسا عہد نامہ بنائیں جس پر عمل کرنا آسان ہو تاکہ سال کے کسی بھی حصے میں ضمیر ملامت کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ مثلاً اگر آپ کا عہد نامہ یہ ہو کہ امسال ورزش تو کیا چہل قدمی سے بھی پرے بھاگنا ہے، مرغن غذائیں کھانی ہیں، پیسے کمانے کی طرف توجہ نہیں دینی، کسی کتاب کو پڑھنے کی نیت سے ہاتھ نہیں لگانا، گھر میں گھس کر بیٹھے رہنا ہے، کہیں باہر نہیں نکلنا، تو سال کے آخر میں آپ کو احساس ہوگا کہ آپ نےکیا کچھ پا لیا ہے۔ اگر آپ نے ایک کتاب بھی پڑھ لی یا اپنی آمدن میں ایک روپے کا بھی اضافہ کر لیایا گھر سے نکل کر ریلوے اسٹیشن تک ہی چلے گئے تو یہ ایسی کارکردگی ہوگی جس پر آپ بجا طور پر خود کو شاباش دے سکیں گے۔
اب ایک آخری مشورہ۔ اُن لوگوں سے بالکل متاثر نہ ہوں جو سردیوں میں صبح چھ بجے اٹھ جاتے ہیں، دو گھنٹے ورزش میں وقت برباد کرتے ہیں یا ناشتے میں آدھے سلائس پر چاندی کے ورق کی طرح مکھن لگا کرکھاتے ہیں اور ساتھ میں بلیک کافی زہر مار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی بالآخر فوت ہی ہوتے ہیں۔ اب جبکہ یہ طے ہے کہ انسان نے مر ہی جانا ہے تو اکتیس دسمبر کو جشن منانے کی بجائے ماتم کرنا چاہیے کہ زندگی کا ایک اور برس کم ہو گیا۔ جگر مراد آبادی سے معذرت کے ساتھ،’میرا پیغام مایوسی ہے جہاں تک پہنچے‘۔(بشکریہ جنگ)۔۔