تحریر: محمد مشتاق ، ایم اے
’’اللہ کے نام پر دے دے بابا‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو ہم میں سے اکثر بس اڈوں، بازاروں، شاپنگ مالز اور ہوٹلوں کے باہر پھرنے والے غریب اور مجبور لوگوں سے سنتے ہیں، جو کسی بھی وجہ سے اپنی زندگی کی معیشت کا پہیہ خود سے چلانے کے قابل نہیں ہوتے اور انہیں اپنی اور اپنے خاندان کے افراد کی روح کا رشتہ ان کے جسم سے منسلک رکھنے کےلیے مخیر حضرات کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس سارے عمل میں حق داروں کے ساتھ پروفیشنل بھکاری بھی دوسروں کا حق مارتے ہوئے روتی صورت بناکر لوگوں سے پیسے اینٹھ لیتے ہیں، جن کے خلاف متعلقہ ادارے گاہے بگاہے آپریشن بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن ظاہر ہے معاشرے میں نیکی اور بدی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے اور یوں زندگی کا سلسلہ رواں دواں رہتا ہے۔
ایسے بھکاریوں سے تو ہم سب کا واسطہ آئے روز پڑتا ہی رہتا ہے لیکن جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی گئی اور خاص کر جب سے انٹرنیٹ نے ہر گھر میں ڈیرے ڈالے ہیں تو جہاں لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوا، وہاں پر بھکاریوں کا ایک ایسا گروہ بھی وجود میں آیا ہے جو اپنی پوسٹ پر پیسے نہیں بلکہ لائیک، فالوو اور شیئر کی بھیک مانگتے ہیں۔ اس گروہ کا ہمارے ملک سے ایسا ایسا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ ہم تو کیا وہ خود بھی حیران ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والی سوشل میڈیا ایپس نے سب بے روزگاروں کو بالخصوص اور تمام مرد و خواتین کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے جس پر اپنا ٹیلنٹ دکھانے کےلیے نہ کسی آڈیشن کی ضرورت ہے، نہ ماں باپ، بہن بھائیوں سے اجازت کی ضرورت ہے اور نہ کسی حکومتی یا متعلقہ اداروں سے منظوری کی ضرورت ہے۔ بس آپ تیار ہوں، جگہ منتخب کریں اور موبائل کا کیمرہ آن کرکے شروع ہوجائیں، اور وہ کریں جو آپ کا دل کرتا ہے۔ گانا گائیے، ڈانس کیجیے، معلوماتی ویڈیو ریکارڈ کیجیے، کسی مخالف کی بغیر کسی ثبوت کے جی بھر کے دھنائی کیجیے، اپنے رشتے داروں کا سارا کچا چٹھا کھول کر سب کے سامنے رکھ دیں اور ایسی ایسی باتیں بھی کرلیں جو آپ کہیں بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد ویڈیو پوسٹ کردیں، جو اس ٹیکنالوجی کی بدولت آناً فاناً گلوبل ولیج کے پردہ پر ایسی پھیل جائے گی کہ بندے کی سوچ ختم ہوجاتی ہے۔
اب ہماری ان باتو ں پر یقیناً وہ لوگ سیخ پا تو ہوں گے جن کا تعلق لائیک، فالوو اور شیئرز کی بھیک مانگنے والے گروہ سے ہوگا۔ لیکن ہم کیا کریں، ہم بھی اسی گلوبل ویلیج کے باسی ہیں اور بھلے ہم میں اتنا ٹیلنٹ نہیں کہ ویڈیو بنا کر پوسٹ کریں لیکن ہم بھی یہ سب کچھ دیکھنے کے گناہ گار تو ہیں۔ اب جو بھی ویڈیو دیکھی جائے ان میں سے اکثر یہ درخواست کرتے نظر آتے ہیں کہ ویڈیو کو لائیک اور شیئر ضرور کریں۔ جن لوگوں نے اپنے پرائیویٹ چینلز بنا رکھے ہیں وہ ہاتھ دھو کر اپنے دیکھنے والے سے ان کا چینل سبسکرائب کرنے کے ترلے کر رہے ہوتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ کئی لوگ اس کےلیے اللہ کا واسطہ، اپنی غریبی کا واسطہ دے کر بھیک منگے بنے بیٹھے ہیں۔ ابھی کل ہی ایک فیملی اپنی ویڈیو میں درخواست کررہی تھی کہ ہمارے چینل کے تین سو سبسکرائبر ہوگئے ہیں اور سات سو باقی رہ گئے ہیں، لہٰذا سارے لوگ اپنے کام چھوڑ کر ان کے چینل کر سبسکرائب ضرور کریں۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ اگر اپ اللہ کو مانتے ہیں، رسول کو مانتے ہیں تو ان کی ویڈیو کو لائیک اور شیئر ضرور کریں۔ واہ بھئی واہ! یہ عجب زبردستی ہے اور بھیک مانگنے کا الگ انداز ہے۔
اب پیسے والے لوگوں کے پاس تو پھر بھی اپنے آپ کو آن ایئر اور وائرل کرنے کے سو لوازمات اور طریقے ہوتے ہیں، لیکن جو ہمارے طبقہ متوسط سے بھی نیچے کے درجہ کا ہے، مجھے لگتا ہے اس نے سارے کام چھوڑ کر سوشل میڈیا کو اپنا لوہا منوانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ پوری کی پوری فیملیز اس مہم پر لگی ہوئی ہیں اور پھر دیکھنے والے بھی مختلف مزاج رکھتے ہیں اور جب کسی کی پوسٹ، ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے تو اس کے تو پھر وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور وہ اندھوں میں کانا راجہ بن کر سوشل میڈیا پر راج کرتا/ کرتی ہے اور اس فیلڈ کے کم پسندیدہ لوگ اسے ستاروں میں چاند سمجھتے ہیں۔ ان کو اپنا گرو سمجھ کر ان کے ساتھ اپنی ویڈیوز بناکر پوسٹ کرتے ہیں، تاکہ ان کے لائیکس بھی زیادہ ہوسکیں۔
اسی طرح یہ ٹرینڈ نوجوان خواتین میں بھی خوب سرائیت کرچکا ہے۔ جس محترمہ کی ویڈیو وائرل ہوتی ہیں، اس کو مختلف بیوٹی سیلون مفت میں میک اپ کرانے کو تیار، بوتیک والے فری ڈریس دینے کو تیار، ریسٹورنٹ والے فری کھانے کھلانے کو تیار اور اس کے بدلے اس نے صرف اپنی ویڈیو میں یہ سہولتیں دینے والوں کی تعریف کرنی ہے اور اپنے ویوورز کو ان کی پوسٹ لائیک اور فالو کرنے کی تھپکی دینی ہے اور بس۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی آئے چوکھا۔
اس پلیٹ فارم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں سینسر کا کوئی چکر ہی نہیں ہے۔ آپ کا جو دل کرتا ہے کیجیے، اور پوسٹ یا ویڈیو کو وائرل ہونے کےلیے اسے انٹرنیٹ کے سمندر میں اتار دیں اور پھر اپنی قسمت کی دیوی کا انتظار کریں۔ لیکن ساتھ ساتھ لوگوں سے روتی صورت بناکر اپنی ویڈیو کو لائیک اور شیئر کرنے کی بھیک ضرور مانگیں اور اگر چینل ہے تو اسے اپنے دیکھنے والوں سے سبسکرائب کرانا نہ بھولیں۔ چاہے اس کےلیے آپ کو ان کے گوڈے کٹے اور پاؤں ہی کیوں نہ چھونے پڑیں۔ کبھی کبھی کچھ لوگوں پر دھمکی بھی کام کرجاتی ہے کہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو ہم یہ کردیں گے، وہ کریں گے اور جن لوگوں پر یہ دونوں ہتھیار اثر نہ کریں ان کو جادو منتر اور دم سے بھی ڈرایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ یہ سب چلتا ہے اور سب بکتا ہے۔
اب آگے چلیے! جن لوگوں کی انتھک محنت اور کوشش کے باجود ان کے لائیک، شیئر اور فالورز نہیں بڑھ رہے، اب ان کو بھی پریشان ہونے یا دل چھوٹا کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ کیوں کہ ان کی اس پریشانی کو دیکھ کر سوشل میڈیا اسٹارز کی آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں اور انہوں نے ایسے لوگوں کےلیے لائیک، شیئر اور فالوورز برائے فروخت پیش کردیے ہیں۔ البتہ یہ سب کچھ آپ کو فری میں نہیں ملے گا، بلکہ ہر ایک کی ایک مخصوص فیس ہے جو آپ کو دینی پڑے گی۔ اس کےلیے میڈیا کی ایپس پر کئی ویڈیوز پڑی ہیں جس میں لائیک، شیئر اور فالوورز خریدنے کےلیے مختلف پیکیجز دستیاب ہیں۔ اب یہ ہر کسی کی جیب پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آپ کو کتنا وائرل کروا سکتا ہے۔ یہ واحد پلیٹ فارم ہے جس میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے کےلیے عمر کی قطعاً کوئی قید نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے یہاں جھولے میں پڑے بچوں سے لے کر قبر میں ٹانگیں لٹکائے بزرگوں کی بھی ویڈیوز دیکھی ہیں اور وہ بھی لائیک، شیئر اور فالوو کے بھکاری ہی نکلے۔
ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ سوشل اپیس لوگوں کی پوسٹس، ویڈیوز اور چینل وائرل ہونے پر انہیں کتنے روپے یا ڈالر دیتے ہیں مگر ہم یہ بات ضرور جانتے ہیں کہ اگر یہی سلسلہ بلا روک ٹوک جاری و ساری رہا تو ہماری معاشرتی اقدار کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلے گا، جو ابھی بھی کوئی مثالی نہیں رہا ہے۔ سنا تو ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی سائبر کرائم نامی ادارہ موجود ہے، اسی طرح ایک طاقتور جمہوری حکومت بھی قائم و دائم ہے۔ تو ہماری سب متعلقہ اداروں اور افراد سے دست بہ دستہ درخواست ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ سوشل میڈیا پر کیا اودھم مچا ہے۔ کوئی اپنی غریبی بیچ رہا ہے، کوئی اپنے حسن کے جلوے کیش کرا رہا ہے، کوئی اسٹار بننے کے جال میں پھنسا ہے، کوئی اپنی دولت اور پروٹوکول دکھا کر لوگوں کی غربت کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اور جو طبقہ کسی وجہ سے اپنا ٹیلنٹ اس پلیٹ فارم پر پیش نہیں کرنا چاہتا یا نہیں کرسکتا، وہ دوسروں کا ٹیلنٹ دیکھ کر اپنا وقت، پیسہ اور اپنی اقدار کا جنازہ نکال رہا ہے۔
ہماری اس تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ بند کردیا جائے اور سب کے منہ پر تالے لگادیے جائیں۔ کیوں کہ ظاہر ہے ایسا ہونا تو آج کے دور میں ممکن نہیں۔ اور اگر زیادہ سختی کی جائے تو پھر اظہار رائے پر پابندی جیسی بدنامی مول لینا پڑتی ہے۔ پھر حقوق انسانی کے ادارے حرکت میں آتے ہیں اور ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ لیکن اس سب کےلیے کوئی قاعدہ قانون بنانے میں تو حرج نہیں ہے۔ کوئی تو ریڈ لائن ہو، جسے کوئی کراس نہ کرے۔
ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور ابھی گزشتہ حکومت بھی اسے ریاست مدینہ بنانے کے درپے تھی اور موجودہ اور آنے والی حکومتیں بھی اپنی معاشرتی اور مذہبی اقدار سے سرعام روگردانی کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں، تو پھر برائے مہربانی لائیک، شیئر اور فالوورز برائے فروخت والے کاروبار پر نظر رکھیں اور اس کے درپردہ ابھرنے اور وائرل ہونے والے ٹیلنٹ کا جائزہ ضرور لیں کہ اس کا مستقبل کی نسلوں پر کیا اثر پڑے گا۔(بشکریہ ایکسپریس)