تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
سیاسی جماعتوں میں شدت پسندی روز بروزبڑھتی جارہی ہے، اور اس میں کوئی جماعت بھی پیچھے نہیں رہی ، بائیں بازو کی جماعتوں کی بات کریں تو میڈیا کے ساتھ برداشت میں اے این پی اور پیپلز پارٹی سرفہرست ہیں لیکن اگر ان جماعتوں کی اپنی ساخت ، برداشت کی سطح کا موازنہ کریں تو یہ بھی اب ماضی جیسی نہیں رہیں ، اس میں بھی ایسے لوگ آچکے ہیں جو ماضی کی اے این پی اور پیپلز پارٹی کے تصور سے بھی میچ نہیں رکھتے ، دائیں بازو کی جماعتوں میں جماعت اسلامی بھی اپنا ماضی اور تاریخ رکھتی ہے البتہ اس میں جمعیت کے بارے مین الگ رائے ہے ،ایسی رائے سیاسی جماعتوں کے طلبا گروپوں میںتھوڑی بہت ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ۔ صحافیوں کو ان جماعتوں سے تھوڑے یا زیادہ مسائل ہمیشہ رہے ہیں اور صحافی احتجاج کرتے رہے ہیں ، جیسی خوبصورت جہوریت بد صورت میک اپک کے ساتھ ہیرا منڈی میں سجا سنوار کر بٹھائی گئی ہے ویسی ہی صحافت بھی سامنے دکان سجائے بیٹھے ہیں اصولِ ہیرا منڈی کے نفی کرتے ہوئے ان کزنوں کے شانوں پر دوسرے کزن جھولتے ہیں ۔ ماضی میں بھی صحافیوں کی غیر جانبداری سو فیصد نہیں تھی۔۔ جانبداری اور سیاسی وابستگی ہوتی تھی لیکن زیادہ تر وہ پیشہ ورانہ معاملات میں بہت زیادہ غالب نہیں آتی تھی لیکن یہ جنرل ضیاءالحق کے اقتدار پر قبضے سے پہلے کی کہانی ہے جو جونیجو دور کے اختتام تک اور پھر بے نظیر قتل کے بعد بتدریج ایسی بدلی کہ اب صحافی ملتے نہیں پارٹی باز صحافی گنے نہیں جاتے ، کوئی جگہ ایسی نہیں جہان یہ دست و گریبان نہیں ہوتی ، اب تو ٹی وی اسکرین نے اس کا کئی بار عملی مظاہرہ دکھایا ہے جس کا ذکر ہورہا تھا ، صحافیوں کے بارے میں مختلف جماعتوں کو شکایات ہمیشہ رہی ہیں ، صحافیوں کو اس سے زیادہ رہی ہیں ، نئی مقبول جماعتوں میں پی ٹی آئی بھی اپنے حصے کا تڑکہ صحافیوں کو لگاتی رہتی ہے ، یہ فاشزم ہے اور اس فیئر اینڈ لولی سے سبھی جماعتوں کا رنگ بدلا ہے ۔ حال ہی میں علی امین گنڈا پور مین صحافیوں کے بارے کچھ الفاظ کہے ، وہ قابل اعتراض ہیں ، لفافہ صحافی معترضہ جملہ ہرگز نہیں ، مذاق میں ہی سہی ہمارے لاہور پریس کلب کے الیکشن میں ایسا ہوچکا ہے کہ پولنگ والے دن لفافہ گروپ کے نام سے ووٹ مانگے گئے اور دیے گئے ،اسی طرح ون کس ون ووٹ کی آوازیں بھی بلند ہوتی رہیں، اللہ ہمارے ان دونوں شغلی ساتھیوں کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے ، اس الیکشن میں یہی دونوں سب سے رونقی تھے ، وہ الیکشن جیتنے کیلئے ماحول بنانے کیلئے امیدوار تھے ۔ لفافے لینے والوں اور اینٹیلی جنس ا یجنسیوںکے لئے کام کرنے والے ، جماعتوں کے ٹاؤٹ صحافی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہوتے تھے ، وہ نئے آنے والوں کو اپنا ہم نوا بنایا کرتے تھے اور جب کوئی انہیں طعنہ مارتا تو وہ شرمندگی بھی محسوس کرتے تھے ، نثار عثمانی ، آئی ایچ راشد اور بدرالاسلام بٹ جیسے اکابرین ہم جیسے نومولودوں کو ان سے بچاتے تھے اور رہنمائی کیا کرتے تھے بعد میں یہ رہنمائی پانے والے خود لوگوں کو ایسے عناصر سے بچاتے رہے ۔ لفافہ صحافی ، مفاد پرست کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے البتہ یہ عزت و تکریم کی بات نہیں ہوتی تھی ، بدلتی جمہوریت ، بدلتے حالات میں الفاظ کی ترکیب بدل گئی ۔ ہم نے اپنے بڑوں سے اور انہوں نے اپنے بڑوں سے سن رکھا تھا کہ’ پیسے کی کیا بات ہے پیسہ تو کنجروں کے پاس بھی ہوتا ہے ‘ یعنی وقار اہم چیز ہے پیسہ نہیں لیکن اب الفاظ کی ترکیب بدل گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ پیسہ ہونا چاہئے بھلے کنجر ہونا پڑے اور ۔۔۔ اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پیسے کیلئے اور نمودو نمائش کے لئے لوگ کنجر ہوگئے ہیں ، یہی ترکیب پیشہ صحافت میں بھی بدلی ہے ، اب آپ کو صحافی کہیں دکھائی نہیں دے گا ، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں ، مذہبی ، لسانی اور ہیجانی گروپوں کے وکیل صحافی نظر آئیں گے ، اس میں این جی اوز نے بھی اپنی کلاس کے الگ سے صحافی پیدا کیے ہیں ۔ اب لفافہ صحافی کہنے پر شرمندگی محسوس نہیں ہونا چاہئے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ لفافہ صحافی کہنے پر سب سے زیادہ سیخ پا بھی ہوتے ہیں جو خود اس صف میں نمایاں ہیں ، جس جس نے لفافہ صحافی کہے جانے پر اعتراض کیا ان سب کا فرانزک آڈٹ کروالیں دودوھ کا دودھ اور پانی کا پانی واضح ہوجائے گا ۔ ماضی کی پی ایف یو جے اور ایپنک کے قائدین کا ہمیشہ یہ اعلان رہا ہے کہ احتساب ان کی زات سے شروع کیا جائے اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے میں بھی خود کو فرانزک آڈٹ کیلئے پیش کرتا ہوں ، اگر لفافہ صحافی ثابت ہوجاؤں تو جوتے مارے جائیں اگر نہ ہوسکوں تو پھر مجھے اور مجھ جیسوں ہی کو لفافہ صحافی کا الزام لگانے والوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے جو خود لفافہ صحافی ہیںانہیں یہ حق کسی صورت نہیں دیا جاسکتا ۔ میں لفافہ صحافت سے پوتر ہونے کا دعویدار ہوں اور علی امین گنڈا پور سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے کیوںلفافہ صحافی کہاگیا ؟ ممکنہ جواب یہ ہوسکتا کہ بھئی میں تو تمہیں جانتا نہیں ۔ تو پھر میرا سوال یہ ہے کہ سرکار آپ لفافے لینے والوں کے نام لے کر بات کریں ورنہ اس پیشے میں لفافے اور مفاد کے بغیر سسک سسک کر جینے والے دیانتدار صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی غالب تعداد ہے ، جنہیں مناسب اور قانونی اجرت بھی بروقت نہیں ملتی اور ان کی اس پیشہ ورانہ دیانتداری کا خمیازہ بلکہ عذاب ان کے زیر کفالت افراد بھگتتے ہیں ۔ یہاں کوئی ایک امین گنڈا پور نہیں، ہر شاخ پر بیٹھے ہیں ، ان کے ارد گرد بھی وہی لفافہ صحافی ہیں جنہیں وہ خود سب کچھ پیش کرتے ہیں جو لفافہ صحافت کے زمرے میں آتا ہے۔ میری اپنے ساتھیوں سے گذارش ہے کہ احتجاج کریں ، بھر پور کریں لیکن اس احتجاج میں لفافہ صحافیوں کو شامل مت کریں ۔۔ہر علی امین گنڈا پور عقل کے ناخن لے اور لفافے دینا بند کرے ، یہ لفافے یونہی نہیں دیتے جاتے ، عیب چپھانے اور چھاپنے کیلئے دیے جاتے ہیں ، رشوت وہی دیتا ہے جو لیتا ہے برائی برائی ہی ہوتی ہے جس شکل میں بھی ہو ، شریف آدمی برائی کا حصہ نہیں بنتا ، ہر علی امین گنڈا پور یہ جان لے ، اب وقت بدلنے والا لفافے والوں( لینے و دینے ) کے دن کسی وقت بھی گنے جائیں گے ، وہ میر جعفر صادق کی طرح یاد رہیں گے ۔ سچائی ہی کا بول بالا ہوگا اور حقیقی صحافی ہی زندہ رہے گا ۔اس کا احتجاج کبھی رائیگاں نہیں جائے گا ، اس وقت سے بچیں ۔(محمد نوازطاہر)۔۔