ahtesab re ahtesab

لائسنس ٹو آسک یا زوال صحافت؟

تحریر: عادل علی۔۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر سے گزری۔موٹر سائیکل پر سوار باوردی پولیس اہلکار سے ایک شخص جس نے مائیک پکڑ رکھا ہے سوال کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پولیس اہلکار مشتعل ہوکر گالم گلوچ شروع کر دیتا ہے۔واقعے کو ایک سیاسی جماعت کی جانب سے پنجاب پولیس کے ظالمانہ رویے کے طور پر دکھایا جارہا ہے کہ ایسے جاہل اور ظالم پولیس والوں نے ان کی جماعت پر کریک ڈاون کیا لہٰذا عوام اندازہ کرے کہ انہوں نے کتنا ظلم کیا ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر سمارٹ فون یوزر کو لائسنس ٹو آسک دیا کس نے ؟
صحافت ایک نہایت ذمہ دار اور معتبر پیشہ ہے۔
صحافی ہونا کسی مافیہ کا حصہ ہونے کے مترادف نہیں ہے کہ آپ خود کو قانون سے بالاتر سمجھیں ساتھ ہی اخلاقیات کی بھی دھجیاں بکھیر دیں۔
موجودہ دور میں صحافی بننے پر کل ملا کر لاگت بیس سے پچیس ہزار روپے ہے۔
ایک سمارٹ فون اور ایک مائیک پکڑ کر آپ کہیں بھی کسی سے بھی خود ساختہ سوال جواب کرکے صحافت کے میدان میں جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔ جس پولیس والے سے اسے راہ میں روک سوال کرنے کی کوشش کی گئی ہے ہوسکتا ہے وہ کسی عجلت میں ہو یا اسے کوئی پریشانی درپیش ہو یا اسے کہیں پہنچنا ہو مگر نہیں چونکہ صحافی ایک “بلا” کا نام ہے اور عوام بشمول سرکاری اہلکار ان سے کمتر ہیں اس لیے پولیس اہلکار کو مائیک و کیمرہ دیکھ کر ڈر جانا چاہیے تھا اور ہکلانہ شروع کر دینا چاہیے تھا پر افسوس!
خیر، ہمارے ہاں اکثریت صحافی کہلانے والے اور خود کو بڑا ورکنگ کلاس جرنلسٹ سمجھنے والے حضرات اس بات کی تشریح سے بھی نابلد ہیں کہ رپورٹنگ اور جرنلزم میں کیا فرق ہے۔ ایک رپورٹر کا کام معلومات کا کھوج لگانا اور انہیں اکھٹا کرکے ادارے کو ارسال کرنا ہوتا ہے۔ ادارے کا نیوز ایڈیٹوریل ڈیپارٹمینٹ شواہد کی تصدیق و چھان بین کی بنیاد پر خبر نشر کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے جبکہ ایک جرنلسٹ کسی بھی واقعے پر حاصل و موجود معلومات کی مدد سے فیکٹس کی چھان بین کرتا ہے اور ان پر اپنا تبصرہ، تجزیہ یا اسٹوری پیش کرتا ہے۔ رپورٹر اپنی خبر رسانی پر شکنجے میں نہیں آتا مگر ایک نامہ نگار و تجزیہ کار اپنے لکھے اور کہے ہوئے ہر لفظ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
ابھی ایک آدھ دن قبل سکھر میں سینیئر صحافی جان محمد مہر کی شہادت کے افسوسناک واقعے کے حوالے سے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ پولیس رولز موجود ہیں پولیس اہلکاروں کو سزا بھی ہوتی ہے وہ معطل بھی ہوتے ہیں اور ان کی نوکریاں بھی چلی جاتی ہیں لیکن آپ صحافی حضرات اپنی صحافی برادری کو بھی تو حد حدود و اصولوں کی پاسداری کا قائل بنائیں کہ وہ سچ کے لیے صحافت کریں نہ کہ بلیک میلنگ کے لیے جبکہ ان کا مزید کہنا تھا کہ صحافی افسران سے ساز باز کر کے پولیس افسران کے تبادلے و تقرریاں تک کروا لیتے ہیں لہٰذا آپ (صحافی) اپنے لوگوں کے لیے بھی تو ضابطوں کے اطلاق کو یقینی بنائیں۔
صحافت کے حالات ہمارے ہاں اس قدر دگرگوں ہوچکے ہیں کہ اپنی ویڈیو پر ویوز کے حصول کے لیے ہم ہر طرح سے اخلاقیات سمیت پروفیشنلزم کا بھی پردہ چاک کر جاتے ہیں۔ اخلاقیات و پروفیشنلزم بھی یہ کہتا ہے کہ ہم کسی سے بھی سوال کرنے سے پہلے ان سے ان کی رائے معلوم کر لیں کہ آیا وہ اپنی رائے دینا چاہتے ہیں بھی یا نہیں.
ایک صحافی کو پروفیشنلزم کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ دوران رپورٹنگ جس ادارے سے ان کی وابسطگی ہو اس کا کارڈ گلے میں واضع ہونا چاہیے تا کہ عوام بھروسہ کر سکیں اور سوال جواب کا طریقہ کار معلوم ہونے سمیت جس موضوع پر عوام سے رائے لینی ہو اس پر خود اپنا بھی ہوم ورک کیا ہوا ہونا چاہیے نا کہ صرف مائیک عوام کے آگے کر دیا جائے کہ آپ کیا کہتے ہیں۔
صحافت عوام کے بیچ عوام کے لیے کی جاتی ہے۔ صحافت عوام کی آواز کو اجاگر کرتی ہے۔
ایک صحافی معاشرے کا عکاس ہوتا ہے مگر افسوس کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور آگے بڑھنے کے لالچ میں ہم نے نہ صرف صحافت جیسے عظیم پیشے کو تباہ کیا ہے بلکہ عوام میں اپنے لیے نفرت بھی پیدا کردی ہے۔(عادل علی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں