nakafi hein lafazian

لباس نہیں گل وچوں ہور اے

تحریر: شکیل بازغ۔۔

جی این این کی اینکرپرسن نیلم اسلم نے عید کے روز کچھ ایسا نیا کیا کہ چاروں اور کئی دانشوڑ بھن گئے۔۔یہ وہی ڈریس ہے جو اسکرین آئیکونز کے فیس بک پیج پر عیدکے روز اینکرز کی تصاویر میں نیلم اسلم کی تصویر میں شیئر کیاگیاتھا۔۔

“کھوکھلی انسانیت” کے دعویدار لبرلز کو نیلم اسلم کا عید پر زرق برق لباس اتنا برا نہ لگا کیونکہ ایسے ملتے جلتے یا اس سے کم کڑھائی والے لباس تو دیگر اینکرز نے بھی عید کے روز زیب تن کئے لیکن اصل مسئلہ ماتھے کا وہ جھومر تھا۔ جو ترک ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی میں کام کرنے والی جاذب نظر  پاکستانیوں کی مشترکہ “محبوبہ” حلیمہ سلطان کے ڈریس کوڈ سے مشابہت رکھتا تھا۔ ارطغرل سیریز نے صیہونیوں کی عالمی ثقافتی یلغار کے سامنے ایسا بند باندھ کہ اسکی ٹرلینیئنز کی کارپوریٹ گلیمرس  میڈیا انڈسٹری کی واٹ لگا دی۔ اب آنکھ اٹھا کر نہ تو کوئی انگریزی میم اداکارہ کو دیکھتا ہے نہ کوئی انگریزی فلم کی چاشنی باقی رہی اور نہ کسی اور ملک کی کوئی پرنسز اداکاراوں کے جلوے کام کررہے ہیں۔ بات ڈریس  پر تنقید دو وجوہات سے ہورہی ہیں ایک یہ نیوز ڈریس نہیں۔ دوسرا سانحہءِ پی آئی اے کے بعد اس ڈریس کیساتھ خبر پڑھنا بے حسی قرار دیا جارہا ہے۔

میری ذاتی رائے میں نیلم اسلم کے گیٹ اپ پر تنقید ترک ثقافت(مسلم ثقافت) کے پھیلاو کے آگے بند باندھنے کی ایک کاوش ہے۔ نیلم اسلم نے یہ لباس عام دنوں میں نہیں پہنا۔ عید کا موقع تھا جس پر تمام دنیا کے مسلم اینکرز نے خصوصی لباس پہنے۔ جن غیر ملکی اداروں میں ڈریس کوڈز کی زیادہ پابندی ہے وہاں کی بات اور سہی لیکن پاکستان میں عید تہوار پر ڈریسز میں زرق برق کا عنصر ہمیشہ سے پایا جاتا ہے۔ آپ یقین کریں حلیمہ سلطان جیسا یہ جھومر اگر نیلم نے نہ سجایا ہوتا تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ جب سانحے کے تیسرے روز تمام ٹی وی چینلز پر تہوار کی مناسبت سے خوشگوار پروگرامز چلتے رہے۔ یہاں تک کہ کئی چینلز پر گانوں اور رقص کے پروگرام۔بھی چلے تو اس سارے شور میں لبرلز کو نیلم کا ڈریس اذیت دینے لگا۔ بات واضح ہے نیلم اسلم نے جو گیٹ اپ اپنایا اس پر ادارے کو اعتراض نہیں تو یہ صیہونیت و مغرب پسند چمچے کڑچھے مامے لگتے ہیں۔ کہ تنقید کریں۔ سچ تو یہ کہ یہ ترک کلچر نہیں بلکہ اسلامی تہذیب پر مبنی ارطغرل سیریز ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کی اصل کی عکاس ہے۔ یہ وہی اسلامی تہذیب ہے جس کو ماند کرنے کیلئے لچر پن پر مبنی صیہونی کارپوریٹ سیکٹر صدیوں سے کام کررہا ہے یہاں تک کہ تعلیمی نظام ہی ایسا بنا دیا گیا جس میں ہیروز مسلمانوں کے بجائے خردماغ و قاتل انسانیت کفار کو دکھایا گیا۔ انگریزی فلمز میں جہاں عورت کو روبوٹک ڈریسز پہنا کر یا پھر نیم عریاں کرکے حیا کے بخیئے ادھیڑے جارہے ہیں ایسے میں نیلم اسلم کا لباس اور حلیمہ کا جھومر آگ تو لگائے گا۔ سوشل میڈیا پر مغربی تہذیب کے گندے انڈے ہمیشہ وہاں غول در غول امڈ آتے ہیں جہاں کسی نے بھی اسلامی تہذیب کو ابھارنے کی کوشش کی۔ یہ سارے من کے پاپی انسانیت کے غم کا الم اٹھا کر گز گز لمبی زبانوں سے بھاشن شروع کردیت ہیں جبکہ انکی زبانین گُنگ ہو جاتی ہیں جب کشمیر میں مشرکین مسلمان عورتوں کی عصمت دری کرکے قتل کررہے ہیں ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے جب فلسطین شام یمن میں مسلم کشی کی اندوہناک داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ شیطان کا یہ ٹولہ جب علی الاعلان میرا جسم میری مرضی جیسا غیر اسلام حیا باختہ نعرہ لیکر سڑکوں پر آکر آپس میں قابل اعتراض حرکات کرتے ہیں تو ان کو نیلم اسلم کا مسلم کلچر کا عکاس جھومر آگ نہ لگائے تو کیا کرے۔ اب تو لبرلز کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے والا ایک عالمی ادارہ بھی نیلم اسلم کے ڈریس پر تنقید کیلئے مضمون شائع کرچکا۔

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

نیلم اسلم نے لبرلز کو جو تکلیف پہنچائی اسکا اثر کچھ عرصہ تو رہے گا۔ یقیناً سب مسلمانوں کی طرح نیلم اسلم بھی پی آئی اے حادثے کی وجہ سے اتنی ہی رنجیدہ تھی جتنا ایک عام پاکستانی ہے۔ اسکا ڈریس اس سانحے کے رونما ہونے پر مسرت کا اظہار قطعاً نہیں۔ اگر محرم الحرام میں کربلا جیسے بڑے سانحے پر تین روزہ سوگ کے بعد نکاح کی اجازت ہے تو کسی اور سانحے کے تیسرے چوتھے روز عید کی خوشی پر من پسند پہناوے پہننا غیر شرعی نہیں۔ لیکن لبرل مغرب پسند طبقہ شریعت کو مانتی کب ہے کہ اس تناظر میں معاملے کو دیکھے۔ اسے تو بس مغربی یلغار کی محبت میں حمایت و مخالفت کرنی ہے۔ اور ایسوں کی بھونڈی تنقید کے سامنے پاکستانی حلیمہ سلطان نیلم اسلم کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں۔(شکیل بازغ)۔۔

(بلاگر کی تحریرا ور اس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں