تحریر: آفتاب حسین ،عام صحافی۔۔
سوشل میڈیا پرآئے دن فاتحانہ انداز میں ہمارے صحافی بھائی مختلف ورکشاپس سیمنار میں شرکت کی فوٹیجز لگا کر وہاں بھجوانے والی شخصیات کا شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں جسکی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اس ورکشاپ سیمنار میں حاصل ہونے والی معلومات آگے پھیلائیں گے یا دیگر دوستوں تک پہنچائیں گے بلکہ اس میں شکریہ بس اس بات کا ہوتا ہے کہ فائیواسٹار ہوٹلز میں کھانا اور پھر ٹریولنگ الاؤنس جو اس کسمپرسی کے دور میں ورکنگ جرنلسٹس کے لیئے ایک نعمت خداوندی ہوتی ہے ایسے میں کچھ جدت آئی تو کچھ ریکٹ بن گئے کچھ دوست براہ راست این جی اوز سیاسی شخصیات سے رابطے کر کہ ازخود سیمنار منعقد کروانے لگے اور ٹرینر کو بلوا کر معقول رقم دلوانے لگے۔
سب احسن اقدام اور میرے خیال میں محنت اور اسکا ثمر ہے کیونکہ دورحاضر میں صحافتی اداروں میں تنخواہوں کا بحران پریشانیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں. پوش صحافی لکھ پتی سے ارب پتی اور ورکر جرنلسٹ دودھ پتی سے صرف چائے پتی پر آگئے ایسے میں کچھ دن کے لئے ایسے ورکرجرنلسٹ کو کچھ مالی اسپورٹ مل جاتی یے
لیکن. ۔
اب افسوس صد افسوس کہ یہاں بھی ریکٹ آگئے پسند ناپسند جسکے پوش لیڈران صحافت سے اچھے تعلقات ہرسمینار میں وہ ہی چہرے اپکو نظرآئیں گے کاروں میں جانے والے بھی پانچ ہزار کا ٹریولنگ الاؤنس لیکر کے ایف سی میں اپنے بچوں کو لنچ ڈنر کرتے ہوئے ویڈیو کال سے سیمنار دکھا رہے ہونگے ۔۔
گذارش صرف اتنی کہ کراچی پریس کلب ہمارا دوسرا گھر اس طرح کی پالیسی نہیں بن سکتی جس میں کسی کو سیمنار ورکشاپ کرانا ہے پریس کلب میں اسکی تشہیر کی جائے ایک کمیٹی ہو جس میں تمام صحافی تنظیموں کے نمائندے ہوں جو اہلیت کی بنیاد پر ایسے ورکشاپ میں جانے کے لیئے عامل صحافیوں کا انتخاب کریں اس میں ان دوستوں کا خیال رکھا جائے جو بےروزگار یا مالی اعتبار سے کمزور ہوں انہیں ٹرینر بناکر کر مدد بھی ممکن یے اور اسطرح جگہ جگہ صحافت میں سینڈیکٹ کی جگہ ریکٹ مافیا نے اپنے پنجے گاڑھ لیئے اسکا بھی مقابلہ کیا جاسکے۔۔(آفتاب حسین عرف عام صحافی)۔۔