تحریر: ایاز امیر۔۔
یہ تو ہم سب بھانپ چکے ہیں کہ 17جولائی یعنی کل‘ جو بیس صوبائی حلقوں کے انتخابات پانچ دریاؤں کی دھرتی میں ہونے والے ہیں‘ غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر دو صورت میں بھونچال کا اندیشہ ہے۔ جیسے توقع کی جا رہی ہے‘ عمران خان میدان مارتا ہے تو موجودہ لایا گیا بندوبست نیچے سے لے کر اوپر تک ہل جائے گا۔ اگر عمران خان ہارتا یا ہرایا جاتا ہے تو پھر اندیشہ ہے کہ ملک میں ایسا طوفان اُٹھے گا کہ کچھ سنبھالا نہ جا سکے گا۔
شروع کے دنوں میں انتخابات کا ٹیمپو اتنا تیز نہ تھا لیکن جوں جوں معرکے کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے‘ ماحول ایسا بن چکا ہے کہ اُسے بنیاد بنا کر کہا جا رہا ہے کہ میدان پی ٹی آئی کا ہوگا۔ بھکر اور لیہ جیسے دور دراز علاقوں میں اجتماعات اس قدر بڑے ہوئے ہیں کہ حامی کیا‘ مخالفین بھی حیران ہو کے رہ گئے ہیں۔ پھر اُن میں جوش و خروش اور اوپر سے عمران خان کی تقرریں۔ مقرر تو وہ تھے ہی لیکن عدم اعتماد کے ناسمجھی پہ مبنی ایڈونچر کے بعد اُن کی تقریروں میں ایک نکھار آگیا ہے۔ وہ شاید اس لیے کہ کہنے کو بہت کچھ ہے۔ میر صادقوں اور میر جعفروں کو اس انداز میں للکارا جا رہا ہے کہ مزہ آ جاتا ہے۔ ایک اور خوبصورتی اس ماحول کی یہ ہے کہ مزید تشریح کیے بغیر سب سمجھتے ہیں ۔ پھر جس اسلوب سے چوروں کی طرف تقریر کا رخ بدلتا ہے تو اُس میں بھی ایک اپنی چاشنی ہے۔ سوشل میڈیا کے تو یہ پی ٹی آئی والے ویسے ہی ماسٹر ہیں۔ ان تقریروں میں یہ بھی ہوا ہے کہ تقریر شروع ہونے کے کچھ وقفے بعد عمران خان اشارہ کرتے ہیں کہ فلاں کلپ چلایا جائے۔ سب سے مقبول کلپ محترم شہباز شریف کا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے پاس آیا ہوں‘ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں بھیک مانگنے آیا ہوں وغیر وغیرہ۔ پھر خواجہ آصف کا وہ کلپ جس میں وہ فرماتے ہیں کہ امریکہ کے جن وینٹی لیٹروں کے سہارے پاکستان سانس لے رہا ہے وہ امریکہ چاہے تو بند ہو سکتے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یہ لیڈر جو تجربے سے خالی نہیں ہیں‘ کیا سوجھی اُن کو ایسی لایعنی گفتگو کرنے کی؟ انسان کی مت ماری جائے تو غالباً ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر وہ کلپ ہے جس میں جناب نواز شریف صدر اوباما کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہیں۔ ہاتھ میں پلندہ ایک کاغذوں کا ہے اور ہمارے محبوب قائد کو سمجھ نہیں آ رہی کہ جو اُنہوں نے دو تین جملے ادا کرنے ہیں وہ کیسے ادا کیے جائیں۔ یہ تینوں کلپ کسی کامیڈی فلم کا حصہ ہوں تو فلم ہٹ ہو جائے۔
جہاں عمران خان کے پاس اتنا کچھ کہنے کیلئے ہے‘ بیچاری لائی گئی حکومت کے پاس کچھ بھی نہیں۔ ملکی صورتحال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کیسے ہٹی اور کس نے ہٹایا۔ ابہام اور چھپاندرہ رہ نہیں گیا۔ ہرچیز واضح ہو چکی ہے۔ تھوڑی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی سمجھ چکے ہیں کہ یہ حکومت اپنے پاؤں پر نہیں کھڑی‘ سہاروں کی محتاج ہے۔ میں تو ٹویٹر وغیر ہ کو اتنا دیکھتا نہیں لیکن جو لوگ اس بارے میں جانکاری رکھتے ہیں وہ جب بتاتے ہیں کہ ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں پر کیا کچھ کہا جا رہا ہے تو حیرانی ہوتی ہے اور تھوڑا سا ڈر بھی لگ جاتا ہے کہ ہمارے افلاطونوں نے ملک کو کہاں پہنچا دیا ہے۔
ذاتی طور پر ہم عمران خان کے اتنے بڑے مداح کبھی نہیں رہے۔ زیادہ تر تنقید ہی کرتے آئے ہیں اور جب وہ اقتدار میں تھے تو تنقید کچھ زیادہ ہی ہو جاتی تھی۔ لیکن اس بات سے کون انکاری ہو سکتا ہے کہ عمران خان کمال کی جرأت اور استقامت رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر یہاں آئے لیکن جسے ہم مقتدرہ کہتے ہیں‘ اُس کے ساتھ ٹکر لینے کی کوشش کی تو تباہ ہو گئے۔ جس طریقے سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی کوئی اور ہوتا تو گھر بیٹھ جاتا۔ عمران خان نے شروع لمحوں سے اعلانِ بغاوت کر دیا۔ اب یہ آپ اللہ کی دین ہی کہیں گے کہ عوام میں اُن کی پذیرائی ایسی ہے کہ اُن کے ایک اعلان پر لوگ باہر امڈ آتے ہیں۔ (ن) لیگ کا وجود ہے تو پنجاب میں‘ پیپلز پارٹی کا سندھ میں‘ پی ٹی آئی کا وجود سارے ملک میں ہے۔ اس لحاظ سے یہ واحد آل پاکستان جماعت ہے۔ ہمت کے ساتھ ساتھ استقامت بھی ہے۔ کوئی دھچکا ہو بھی تو ہم نے دیکھا ہے کہ عمران خان گھبراتا نہیں۔ 25مئی کی لانگ مارچ جو کہ اتنی کامیاب نہ رہی‘ کوئی اور ہوتا تو مایوسی کا شکار ہو جاتا لیکن عمران خان نے پھر جلسوں کا اعلان کیا۔ اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ لانگ مارچ کی ناکامی کبھی ہوئی ہی نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کیا فیصلہ سازاور کیا لایا گیا بندوبست‘ گھبراہٹ اور پریشانی اُن پر چھائی ہوئی ہے۔
شہباز شریف وغیرہ نے ٹھیک کیا۔ انہیں تھپکی دی گئی تو یہ استعمال ہونے کیلئے فوراً تیار ہو گئے کیونکہ ان کے اپنے مفادات تھے اور وہ پورے ہوتے دیکھ کر اسی میں شاید خوش ہوں۔ نیب قانون بدل دیا گیا ہے اور ان کے خلاف کرپشن کیسز بھی کمزور پڑ چکے ہیں۔ ان کیلئے یہی کافی ہے۔ صحیح معنوں میں پریشان تو لانے والے ہیں۔ عوامی ردِعمل کا انہیں ذرہ برابر ادراک نہ تھا۔ یہ تو سمجھے ہوئے تھے عمران خان کو ہٹایا جائے گا تو سب کچھ اُن کی مٹھی میں ہوگا۔ ایسا ہوا نہیں۔ ساری اپوزیشن پارٹیاں اور فیصلہ ساز ایک ساتھ کھڑے ہیں اور دوسری طرف اکیلا عمران خان ہے۔ لیکن ان سب کے کیا لَتے عمران خان لے رہا ہے۔ ان کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے ساری اتحادی یلغار بے بسی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہوا ہے کہ پنجاب کے ان ضمنی انتخابات کی شکل میں ایک فیصلہ کن معرکہ سامنے آ گیا ہے۔ عمران خان نے وہ ماحول پیدا کر دیا ہے کہ ان انتخابات میں دھاندلی کے روایتی ہتھکنڈے ناممکن ہو گئے ہیں۔ عوام بپھرے پڑے ہیں۔ کمزور حریف ہو تو ہمارے انتخابات میں کچھ نہ کچھ ہیرا پھیری ہو سکتی ہے لیکن عوام کا موڈ کچھ یوں بن چکا ہے کہ وہ ایسا ہونے نہیں دیں گے۔
ساری نظریں لہٰذا کل کے معرکے پر ہیں۔ ضمنی انتخابات میں کہاں کبھی اتنی دلچسپی دکھائی جاتی ہے۔ لیکن یہ انتخابات ہیں کہ نظریں ان پر جمی ہوئی ہیں کیونکہ جس طرف بھی نتیجہ گیا بہت کچھ ہونے کا احتمال ہے۔ دونوں صورتوں میں للکار عمران خان کی ہوگی۔ میدان مار لیا تو للکار مختلف نوعیت کی ہوگی۔ ہتھکنڈے استعمال کیے گئے اور پی ٹی آئی کی شکست کا سامان جمع کیا گیا تو للکار اور قسم کی ہوگی۔ دونوں صورتوں میں دھرتی ہل کے رہ جائے گی۔ جنہوں نے سب کچھ کیا‘ ظاہر ہے اُن کی پریشانی میں اضافہ ہوگا۔
مشہور فوجی قول ہے کہ ناکامی کو تقویت نہیں دینی چاہیے۔ یعنی غلط حکمت عملی سرزد ہو جائے تو عقلمندی اسی میں ہے کہ حکمت عملی تبدیل کی جائے۔ عمران خان کی حکومت کو ہٹانا سب کیلئے غلط ثابت ہوا ہے۔ ٹوٹکوں کے استعمال سے تو کچھ حاصل نہیں ہونا۔ لیکن جنہوں نے یہ سب کچھ کیا‘ کیا اُن میں اتنی فہم و فراست ہے کہ اپنے کیے میں کچھ تبدیلی لائیں اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کچھ واپسی کے قدم لیں؟ پر اتنی فہم و فراست کہاں۔ لگتا ہے خود بخود عقل نہیں آئے گی اور یہ جنگ جو شروع ہوئی ہے اپنے آخری لمحات تک جائے گی۔(بشکریہ دنیانیوز)