تحریر: جاوید چودھری۔۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے سرمایہ کار ہیں‘ آپ کا کام مختلف کاروباروں‘ صنعتوں اور اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری ہے‘ آپ کے ایک پرانے دوست ہیں اور اس دوست کا بیٹا اپنے کاروبار میں آپ کی سرمایہ کاری چاہتا ہے‘ دوست آپ کے سامنے بیٹے اور اس کے کاروبار کی بھرپور سفارش کرتا ہے‘ آپ دوست کے بیٹے کو بھی جانتے ہیں‘ بچہ بھی نہایت مؤدب‘ محنتی اور اپنے کام کا ماہر ہے۔آپ دوچار ملاقاتوں کے بعد اس کے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کے لیے راضی ہو جاتے ہیں اور آپ اپنے دوست کو ساتھ لے کراس کے دفتر پہنچ جاتے ہیں‘ نوجوان کے دفتر کی لوکیشن بھی اچھی ہے اور دفتر بھی لیکن جب آپ وہاں پہنچتے ہیں تو اندر لڑائی چل رہی ہوتی ہے‘ کمپنی کے تین پارٹنر ہیں اور تینوں ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں‘ دفتر میں کرسیاں اور میزیں چل رہی ہیں اور لائٹس توڑی جا رہی ہیں‘ آپ یہ منظر دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔آپ کے دوست کا بیٹا آپ کو فوراً پکڑ کر ساتھ والے کمرے میں لے جاتا ہے‘ دروازہ اندر سے لاک کرتا ہے اور آپ کی خدمت شروع کر دیتا ہے لیکن اس دوران اس کے پارٹنر باہر سے دروازے کو ٹھڈے مارنے لگتے ہیں‘ آپ اندر بیٹھ کر ان کی گالیاں بھی سنتے ہیں اور ان کی شدت اور نفرت کو بھی محسوس کرتے ہیں‘ آپ کا دوست اور اس کا بیٹا دونوں بہت شرمندہ ہو جاتے ہیں‘ وہ جی جان سے آپ کی خدمت کرتے ہیں‘ آپ کو وہ دونوں بہت اچھے بھی لگتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا آپ ان کی خدمت اور عمر بھر کی دوستی کے باوجود اس پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کریں گے؟ اور یہ سرمایہ کاری ہو بھی تیس چالیس ارب ڈالر! مجھے یقین ہے آپ کا جواب ناں ہو گا‘ آپ اپنے دوست کا احترام کریں گے۔اس کے بیٹے سے بھی شفقت اور محبت سے پیش آئیں گے‘ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیریں گے‘ یہ جب بھی آپ کے پاس آئے گا‘ آپ اس سے ملیں گے‘ اس کی خدمت کریں گے اور اسے دو چار ملین ڈالر بھی دے دیں گے لیکن جب انویسٹمنٹ کی باری آئے گی تو آپ صاف انکار کر دیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ آپ جانتے ہیں اس کمپنی میں آپ کا پیسہ برباد ہو جائے گا‘ اس سے کہیں بہتر ہے آپ یہ رقم سیدھی کنوئیں میں پھینک دیں۔سعودی عرب بھی اس وقت ہمیں یہی بتا رہا ہے‘ ہمیں توقع تھی سعودی ولی عہد پاکستان آئیں گے اور ملک میں سرمایہ کاری کا وہ سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کا وعدہ برادر اسلامی ملک نے ہم سے کیا تھا لیکن پرنس محمد بن سلمان کا دورہ آگے سے آگے ٹلتا جا رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ سعودی عرب کے خفیہ اداروں کا خیال ہے ’’پاکستان ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا‘‘ ملک میں پارٹنرز کی جنگ جاری ہے۔
لہٰذا یہاں آنے کا ابھی کوئی فائدہ نہیں اور ان کی یہ رائے غلط بھی نہیں ‘ آپ خود سوچیے آپ اگر کھرب پتی ہوں یا آپ سعودی عرب کے کراؤن پرنس ہوں تو کیا آپ ایک ایسے ملک میں سرمایہ کاری کریں گے جس کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ وفاقی دارالحکومت پر قبضے اور بجلی سپلائی کے دفتر پر دھاوا بولنے کی دھمکی دے رہا ہو‘ جس میں اپوزیشن حکومت کو فارم 47 کی پیداوار کہہ رہی ہو اور وہ اسے سرے سے ماننے کے لیے تیار نہ ہو‘ جس میں عمران خان زیادہ ووٹ لے کر جیل میں بیٹھا ہو اور وہ وہاں سے آرمی چیف کو قیامت تک پیچھا کرنے کی دھمکی دے رہا ہو‘ جس میں سابق وزیراعظم پر گھڑی‘ ہار اور سائفر کا کیس چل رہا ہو اور اس کا ایک ترجمان ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہہ رہا ہو ہماری حکومت کی تبدیلی میں سعودی کراؤن پرنس کا ہاتھ بھی تھا‘ جس میں 9مئی جیسا واقعہ ہوا ہو اور ریاست سال گزرنے کے باوجود مجرموں کا تعین کر سکی ہو اور نہ کسی کو سزا دے سکی ہو۔جس میں مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی لانگ مارچ کی تیاریاں کر رہے ہوں اور ان سب کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں پنجابیوں کوگولیاں ماری جا رہی ہوں‘ دہشت گردی عام ہو‘ ججوں کی پگڑیاں فٹ بال بنا کر ان کے ساتھ کھیلنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہوں اور سپریم کورٹ 57 ہزار مقدمات کی گٹھڑی پر بیٹھ کر سیاسی مقدموں کے فیصلے کر رہی ہو اور سیاست دان روز عدلیہ کو آنکھیں دکھا رہے ہوں اور اس تماشے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس میں روز دنیا ماں بہن کی گالیاں سن رہی ہو اور مُردوں کو قبروں سے نکال کر پھانسی دینے کے اعلان دیکھ رہی ہو۔
آپ خود بتایے اگر آپ پرنس محمد سلمان ہوں تو کیا آپ اس ملک میں سرمایہ کاری کریں گے؟نہیں کریں گے چناں چہ ہمیں حماقت کی نیند سے جاگنا ہو گا اور کسی ایک ایسے شخص یا عہدیدار کو آگے بڑھ کر باپ کا کردار ادا کرنا ہو گا جو سب کو اکٹھا بٹھا سکے‘ اگر چیف جسٹس یہ کوشش کر لیں تو زیادہ مناسب ہے‘ یہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا بٹھا کر کوئی فریم ورک طے کر دیں‘ ماضی کی غلطیوں کو دفن کر دیں اور سب مل کر آگے کا سفر شروع کر دیں تو شاید سفر کٹنا شروع ہو جائے ورنہ ہم مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں‘ نیچے لاوے کا تالاب ہے‘ ہم اس کے کنارے کنارے چل رہے ہیں اور ساتھ ایک دوسرے کو کہنیاں بھی مار رہے ہیں‘ یہ معاملہ آخر کتنی دیر چلے گا؟ ۔
ملک کی حالت یہ ہے وزیراعظم نے دو دن قبل اکنامک ایڈوائزری کونسل بنائی‘ اس کے آٹھ ممبرز ہیں جن میں سے پانچ بزنس مین ہیں اور ان پانچوں کے اپنے مفادات ہیں‘ کونسل میں جہانگیر ترین‘ ہونڈا اٹلس کے مالک ثاقب شیرازی‘ میاں منشاء کے بھانجے اور نشاط چونیاں لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو شہزاد سلیم ‘ گل احمد گروپ کے مالک حاجی بشیر علی کے صاحب زادے زید بشیر‘ انٹرلوپ کے چیئرمین مصدق ذوالقرنین‘ لمز یونیورسٹی کے پروفیسر اعجاز بنی‘ سافٹ ویئر کمپنی سسٹم لمیٹڈ کے سی ای او آصف پیر اور پاکستان میں مکینزی کے سینئر پارٹنر سلیمان احمد شامل ہیں۔
یہ تمام لوگ بڑے نام ہیں اور پاکستان کی اکانومی میں بلاشبہ ان کا بہت کنٹری بیوشن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے ان کا حکومت سے ٹھیک ٹھاک معاشی مفاد وابستہ ہے مثلاً آٹھ میں سے چار ممبرز کے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے ہیں‘ جہانگیر ترین چینی کے سیکٹر کے سب سے بڑے کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی پیدا کرتے ہیں‘یہ بے شک ایک وژنری انسان ہیں اور ان کے مشورے ملک اور حکومت کے بہت کام آئیں گے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ ملک کو فائدہ پہنچاتے ہوئے اپنا نقصان کریں گے؟ کیا یہ اپنی شوگر ملز بند کرا لیں گے؟ شوگر مل کے ویسٹ (بگاس) سے بجلی پیدا کرنے کا کارخانہ بند کرا دیں گے! ثاقب شیرازی بھی پاور پلانٹ کے مالک ہیں۔یہ ہونڈا گاڑیاں بھی بنا اور بیچ رہے ہیں اور انھوں نے آج سے 25 سال قبل حکومت سے وعدہ کیا تھا ہم گاڑیاں ملک میں پروڈیوس کریں گے اور پھر انھیں ایکسپورٹ کریں گے لیکن وعدہ آج تک پورا نہیں ہو سکا چناں چہ حکومت کے ساتھ ان کا پھڈا چلتا رہتا ہے اور یہ اس وقت اس کونسل کے ممبر ہیں جس نے براہ راست وزیراعظم کو مشورے دینے ہیں‘ کیا یہ حکومت کو اپنے خلاف مشورہ دیں گے؟ یہ پاور پلانٹ بھی چلا رہے ہیں‘ شہزاد سلیم بھی پاورجنریشن اور ٹیکسٹائل کے بڑے کھلاڑی ہیں‘ کیا یہ بھی آئی پی پیز اور ٹیکسٹائل سیکٹر کے خلاف پالیسی بننے دیں گے؟ زید بشیر گل احمد گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ حاجی بشیر کے صاحب زادے ہیں‘ یہ ایک طرف پاورپلانٹ کے مالک ہیں اور دوسری طرف انھوں نے دبئی میں بھاری سرمایہ کاری سے ٹیکسیوں کی کمپنی بنائی ہے جس میں اس وقت لگ بھگ ہزار گاڑیاں ہیں‘ کیا یہ بھی آئی پی پیز کے خلاف پالیسی بننے دیں گے یا یہ دبئی میں ہزار گاڑیوں کی کمپنی بنا کر حکومت کو ملک میں سرمایہ کاری کا پلان بنا کر دیں گے؟ اعجاز بنی لمز کے پروفیسر ہیں‘ یہ کتنی بڑی توپ ہیں آپ لمز کے پروفیسرز اور طالب علموں سے پوچھ لیں‘ سلیمان احمد کی کمپنی مکینزی ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کر رہی ہے اور یہ اس کاروباری سمجھوتے کے ساتھ وزیراعظم کی ایڈوائزری کونسل میں بھی شامل ہیں تاہم کمیٹی میں دو لوگ بہت اچھے اور سیلف لیس بھی ہیں۔مصدق ذوالقرنین اور آصف پیر‘ مصدق ذوالقرنین جرابوں کی سب سے بڑی کمپنی انٹر لوپ کے چیئرمین ہیں اور ان کا حکومت کے ساتھ بظاہر کوئی ٹکراؤ نہیں‘ یہ وژنری انسان بھی ہیں‘ آصف پیر سسٹم لمیٹڈ کے سی ای او ہیں‘ اس کمپنی میں عرب ملکوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ اس کی گروتھ بہت اچھی ہے اور اس کا بھی حکومت کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں لیکن جو باقی چھ لوگ ہیں یہ براہ راست حکومت اور حکومت براہ راست ان سے متاثر ہوتی ہے چناں چہ حکومت نے دودھ کی مشاورت کے لیے چھ چھ بلے رکھ دیے ہیں‘ میں بزنس مینوں کا حمایتی ہوں۔
میں دل سے سمجھتا ہوں اگر ملک میں بزنس چلے گا تو ہی ملک چلے گا‘ بزنس بند تو ملک بند لیکن اس کے ساتھ ساتھ مالی مفادات کا ٹکراؤ بھی دنیا کی ایک بہت بڑی سچائی ہے‘ آپ اگر ریچھ کو شہد کی حفاظت کی ذمے داری دیں گے تویہ تجربہ کام یاب نہیں ہو گا لیکن آپ اگر اس کے باوجود یہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر مہربانی کر کے فرح گوگی کو بھی اس کونسل میں شامل کر لیں‘ اس بی بی کی گروتھ ان سب سے زیادہ تھی‘فرح گوگی نے صرف ایک نکاح کرا کر کھربوں روپے کمائے تھے چناں چہ اس سے اچھا بزنس ماڈل کیا ہو سکتا ہے؟ آپ اسے بھی کونسل میں لے لیں‘ میرا خیال ہے یہ نہ صرف ملک کو دو ماہ میں قدموں پر کھڑا کر دے گی بلکہ وزیراعظم کو بھی مرشد بنا دے گی۔ (بشکریہ ایکسپریس)۔۔