علی عمران جونیئر
دوستو،نو ممالک میں کی گئی 29 تحقیقات اور سروے سے معلوم ہوا ہے کہ لافٹرتھراپی سے ڈپریشن، اینزائٹی اور یاسیت دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ماہرین نے اسے علاج بالمزاح یا ہیومرتھراپی کا نام دیا ہے جس میں باقاعدہ طور پر شریک افراد کو ہنسنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ قہقہوں سے علاج کو روایتی نفسیاتی معالجے جیسی ہی افادیت حاصل ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ کئی افراد نے اسے بہت ہی مفید قرار دیا ہے۔یہ میٹا اسٹڈیز ‘برین اینڈ بیہویئر’ میں شائع ہوئی ہے جس میں مختلف ممالک کے قریب تین ہزارافراد نے شرکت کی تھی۔ کئی شرکا کو باقاعدہ طور پر ایسی کلاسوں میں تربیت دی گئی تھی کہ وہ زور سے ہنسیں اور لبوں پر مسکراہٹ کے لیے کئی طریقے استعمال کئے گئے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مطالعے میں ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا جو مشکل حالات سے گزررہے تھے۔ ان میں سرطان کے مریض، سرجری سے گزرنے والے بچے، ڈپریشن کے عام مریض، دماغی عارضے کے شکار افراد، ڈائیلاسس کرانے والے لوگ، گھریلو خواتین اور طلبا و طالبات بھی شامل تھے۔ تمام شرکا نے بتایا کہ ہنسنے کے عمل سے ان میں ڈپریشن اور مایوسی دور ہوئی ہے اور اکثریت اس طریقے کی معترف دکھائی دی۔تو چلئے آج آپ بھی لافٹر تھراپی آزمائیے۔
کسی صاحب نے خواب دیکھا کہ وہ ایک حساس ادارے کے دفتر کے باہر کھڑا ہے اور۔۔ لے کے رہیں گے آزادی۔۔ کے بلند و بالا نعرے لگا رہا ہے۔ اس کے ساتھ دو بندے بھی ہیں جو اس کے نعروں کا اسی جذبے سے جواب دے رہے ہیں۔صبح ہوئی تو راجا صاحب نے بڑے تپاک سے اپنا پوراخواب بیوی کو کہہ سنایا۔ بیوی نے اپنے انقلابی شوہر کے اس دلچسپ خواب کا ذکر اپنی عزت و رعب جماتے ہوئے اپنی ہمسائی خالدہ سے کیا۔ دوسری رات کو کالی ویگو ڈالے والے آئے اوران صاحب کو اٹھا کر لے گئے۔ہفتہ بھر کی تواضع کے بعد اسے ادھ موا اور بے حال کر کے اس کے گھر واپس پھینک گئے۔اگلے دن اس نے دیکھا کہ کالی ویگو والے پھر اس کے دروازے پر آئے ہوئے ہیں۔ اس نے آہ و زاری کرتے اور سسکتی آواز سے واسطے دیتے ہوئے کہا۔۔ میں نے جو خواب دیکھا تھا وہ آپ کو سچ سچ بتا دیا تھا، اب میرے پاس بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں۔ اور میں شرمندہ ہوں کہ ایسا خواب دیکھ لیا، معافی بھی مانگ چکا ہوں۔۔ویگو والوں نے کہا۔۔ڈرو نہیں۔ ہمیں بس یہ بتا دو کہ وہ دو لوگ کون تھے جو خواب میں تمہارے نعروں کا جواب دے رہے تھے؟؟۔۔ ان صاحب نے کچھ دیر سوچا اور ذہن پر زور ڈالنے کی اداکاری کرتے ہوئے بولے۔۔ وہ دو لوگ میری بیوی اور میری ہمسائی خالدہ تھے۔نوٹ:براہ کرم اس واقعہ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، نہ کسی سیاسی جماعت سے کوئی واسطہ ہے۔اس لئے جتنا ہنس سکتے ہیں، ہنس لیں۔
خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے وہ گھر میں تین بھائیوں کی بڑی بہن تھی، بھائی تقریباً اسی نے پالے تھے، جس کی وجہ سے خود اس کا بچپن نا آسودہ اور ادھورا سا تھا، اسے کسی بھی تقریب میں نہیں لے جایا جاتا تھا، بھائیوں کو پتہ نہیں کیسے مٹی کھانے کی لت پڑ گئی تھی اور والدین نے کمپیوٹر جینریٹڈ کمانڈ تیار کر رکھی تھی، ان کا خیال رکھنا مٹی نہ کھائیں، خیال رکھنا مٹی کی طرف نہ جائیں۔۔ اس بیچاری کے خواب بھی بھائیوں کو مٹی کھانے سے روکنے کی جدوجہد میں ہی ٹوٹتے۔۔وہ جوان ہوئی تو خدا خدا کر کے ایک رشتہ قبول کر لیا گیا، جو کہ ابا جی کے مسجد کے ساتھی کا بیٹا تھا،شادی کی شاپنگ کے دوران بھی اس کی پھوپھیاں شاپنگ کے نام پر مٹر گشت کرنے نکل جاتیں اور اپنے بچے اس کے حوالے کر جاتیں ،اسی کمانڈ کے ساتھ کہ ان کا خیال رکھنا مٹی شٹی نہ کھائیں، خدا خدا کر کے شادی کی تقریبات مکمل ہوئیں اور وہ شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے پیا گھر سدھارگئی۔۔ شکر اس بات کا کہ بھائیوں سے جان چھوٹی ،اب چار دن اپنی نیند سوئے گی اور اپنی جاگ جاگے گی۔۔ وہ گھنٹے بھر سے سکڑی سمٹی خوفزدہ ھرنی کی طرح بیٹھی تھی کہ گھونگٹ کشائی کا مرحلہ بھی گزرے اور وہ رسومات کی چکی سے نکل لے،شوہر صاحب تشریف لائے تو سلام نہ کلام،، مصلیٰ بچھایا اور نفل شروع کر دیئے،، نفل پڑھ کر فارغ ہوئے تو دعا شروع کی، دعا بھی اتنی لمبی جیسے گڑگڑا کر کسی مصیبت سے بچنے کی سعی فرما رہے ہوں۔۔شوہر صاحب ذکرواذکار سے فارغ ہوکر آخر پلنگ کی طرف متوجہ ہوئے کہ وہاں بھی کوئی مخلوق بٹھا رکھی ہے۔۔ باقی 5،دس منٹ اس کے بال پکڑ کر کچھ پڑھتے گزار دیئے۔۔ پھر دو زانوہو کر بیٹھ گئے اور ھپناٹسٹ کی طرح کمانڈ دینے لگے،دیکھو تمہیں میرے ماں باپ کا خیال رکھنا ھو گا۔۔یہ جادوئی جملہ سنتے ہی دلہن کی جان پر بن آئی اور کمرہ اس کی نظروں میں اپنی چھت سمیت گھوم گیا،اس کے سارے خواب چھن سے چکنا چورہو گئے،بچوں کی نسبت بڑوں کو سنبھالنا کتنا کچھ مشکل ہو گا۔۔اس نے ساری رسمی کارروائی اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور خودہی گھونگٹ اٹھا کر بے ساختہ پوچھا۔۔کیوں؟ آپ کے ماں باپ بھی مٹی کھاتے ہیں؟؟
ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی کو پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں سڑک بنانے کا ٹھیکہ مل گیا۔۔انھوں نے نقشے بنانے شروع کیے۔ سروے کے دوران ایک غیر ملکی ٹھیکیدار کو یہ سب سمجھ میں نہ آیا۔ اعتراض اٹھانے پر انھوں نے پوچھا کہ آپ لوگ پہاڑی علاقے میں سڑک کا نقشہ کیسے ترتیب دیتے ہیں؟اس پر پاکستانی ٹھیکیدار نے کہا کہ ہم کھوتے پہ چونے کی بوری میں سوراخ کر کے لاد دیتے ہیں اور کھوتے کو پہاڑ پہ چھوڑ دیتے ہیں، کھوتا جس راستے سے اوپر نیچے جاتا ہے وہاں چونے کے نشان سے ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بہتر راستہ ہے، اور پھر وہیں پر سڑک بنانا شروع کردیتے ہیں۔وہ غیر ملکی بڑا پریشان ہوا اور پوچھا کہ ۔۔آپ کے ہاں سڑکیں سول انجینئرز نہیں بناتے؟ تو ٹھیکیدار نے ہنس کر کہا۔۔۔جہاں کھوتا میسر نہ ہو وہاں انجینئرز ہی بناتے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جھکی ہوئی گردن سے اگر موبائل فون میں اجنبیوں سے رشتے جڑسکتے ہیں تو حقیقی رشتوں کو نبھانے کے لئے ذرا ساجھک جانے میں کیا مسئلہ ہے؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔