تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
اکثر میں نراش سا ہوجاتا ہوں۔۔دراصل میری تؤقعات پہ بہت کم لوگ پورے اترتے ہیں۔۔لیکن بس چند لوگ پھر بھی ایسے ہیں کہ مایوس نہیں کرتے ۔۔ میری تؤقعات پہ پورے اترے رہتے ہیں ۔۔۔ شیخ رشید انہی میں سے ایک نابغہ ہے ۔۔۔ میں ان سے ہمیشہ بونگیوں کی تؤقع کرتا ہوں اور وہ کبھی میری آس نہیں توڑتے ۔۔ آئے روز شیخ کے عجیب و غریب بیانات موصوف کی اس ‘شان’ میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔۔۔ اب اسی تازہ اظہار خیال کو ملاحظہ کیجئے کہ جوانڈیا پاکستان کے حالیہ میچ کے حوالے سے گونجا ہے اور جس میں شیخ کے دریئے بصیرے کا جوش ب نے کمال جہالت اور بے پایاں حماقت سے اس میچ میں حاصل ہوئی فتح کو اسلام کی فتح سے تعبیر کیا ہے ۔۔۔ گویا کھیل نہ ہوا جہاد ہوگیا ۔۔۔یعنی اس سے زیادہ دلپذیرنسخہء نجات بھلا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ۔۔۔۔ بیچ میداں اگر جو کفر کو رگڑ ڈالیں ۔۔۔۔ کھیل بھی کھیلیں اور جنت کو بھی پالیں ۔
اسی لیئے نسخہء رشیدیہ کے بموجب ۔۔۔ کوئی پوچھے کہ جنت کا رستہ کہاں ہے ۔۔۔ تو جھٹ یہ بتلانا میدان کرکٹ کے درمیاں ہے
تفنن برطرف ، کھیل میں جیت کو مذہب کی جیت کا نظریہ بناڈالنے والے یہ شیخ رشید اور ان جیسے چند اور ‘ باکمال ‘ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ ایسی سوچ سے اگر سب سے زیادہ نقصان کسی کا کررہے ہیں تو وہ اسلام ہی کا کررہے ہیں کیونکہ پھر تو ایسے تقابل میں کافر ہندو فٹافٹ مستند اعداد و شمار ہمارے منہ پہ مارے گا کہ جن کے مطابق بالکل صاف ہے کہ اس سے پہلے کھیلے گئے سب ورلڈ کپ کے 12 میچوں میں سارے کے سارے میچ بھارت ہی نے جیت رکھے تھے ،،، معاذاللہ فلسفہء رشیدیہ سے استنباط کرتے ہوئے اسی احمقانہ نکتہ آفریں سوچ کی بل پہ تو دیار کافر میں خدانخواستہ جشن بپا ہوسکتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے میدان میں لڑی گئی ان 13 مبینہ مذہبی جنگوں کا خلاصہ تو یہ ہے کہ ہندو مت 12 مربہ سرخرو ہوا اور معاذ اللہ اسلام محض ایک ہی بار جیت پایا ۔۔۔ یوں گویا محض ایک لائن آف کنٹرول کے فرق سے کفر و اسلام کی جیت کا تناسب 1:12 کا ہے ۔۔۔ عام سا معاملہ ہوتا تو شیخ رشید کا یوں لاف و گزاف قابل نظراندازی ہوتا لیکن یہ تو دین اسلام کی اصابت و صلابت کا معاملہ ہے ۔۔۔ اور ذراسوچیئے کہ اگر یہی طرز فکرچلنے دیا یا تو پھر تو مسئلۃ کشمیر کے حل کے لیئے اور حق و باطل کے فیصلے کے لئے بات خدانخواستہ پاکستان کی سب سے بڑی مسجد کے امام اور بھارت کے بھی سب سے بڑے مندر کے پنڈت میں کشتی کرالینے تک بھی جاسکتی ہے۔۔
اپنے اسی نرالے بیان میں ایک اور افسوسناک بات شیخ رشید نے یہ بھی کہی کہ پاکستان کی جیت پہ بھارت کے مسلمان بھی اس پہ بہت خوش ہوئے ہیں ۔۔۔ ایسا کہ کر شیخ نے خواہ مخواہ وہاں بسنے والے مسلمانوں کے حب الوطنی کی حیثیت کو انکے دیس میں مشکوک بنانے بلکہ مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کرڈالی ہے جو کہ پہلے ہی کئی برسوں سے محض مذہب کی بنیاد پہ بی جے پی سرکار اور آرایس ایس کی جانب سے سو طرح کے شکوک اور آزمائشوں کی زد میں ہیں اور انہیں ہمہ وقت سب سے بڑی مشکل ہی اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے کی درپیش رہتی ہے اور اس کے لئے بسا اوقات ایسے پاکستان بیزار بیانات بھی دینے پڑجاتے ہیں کہ جو یہاں کے عام باشندے کے لیئے قابل قبول نہیںہوتے مگر فکری طور پہ پختہ لوگوں کو انکی مجبوریوں کا احساس ہے اور سبھی کو اس کا پاس اور ادراک کرنا چاہیئے ۔۔۔ بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا کے مصداق خدا خدا کرکے اسی میچ کے صدقے یہ نوبت تو آئی کہ بولر محمد شامی کو غدار کہنے کی ٹرولنگ پہ بھارت کے معقول لوگ جاگ اٹھے اور وہاں کے مشہور نیشنل ٹی وی چینل آج تک کے اسکرین پہ معروف اسپورٹس جرنلسٹ وکرانت گپتا نے ان سے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 28 کروڑ بھارتی مسلمان اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے کہ ہندو ۔۔۔ اور یوں جوش جذبات میں وہ مسلمانان ہند کی صحیح تعداد بیان کرگئے جبکہ پہلے اس سے پہلے یہ اعداد و شمار 12 -15 کروڑ سے آگے بڑھ کے نہ دیتے تھے۔۔۔
بھارت کے مسلمان یقیناً اسلام سے محبت کرنے میں کسی بھی مسلم ملک سے پیچھے نہیں مگرتقسیم ہند نے وہاں کے ہندؤں کو جو زخم دیا ہے وہ تاحال رس رہا ہے اور وہ اس درد کے اندمال کے لئے اس زخم پہ الزام تراشیوں کا مرہم لگانے اور مسلمانوں کو تنگ کرنے کے ہرممکن حربے اختیار کرنے ہی کو بہترین انتقام سمجھتے ہیں ۔۔ ہمیں ان اتقامی کارروائیوں میں بڑھاوا لانے جیسے بیانات سے یکسر گریز کرنا ہوگا ورنہ بھارتی مسلمانوں کی زندگی اجیرن کرنے میں ہمارا بھی حصہ ہوگا ،،، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے قومی مفاد کی پالیسیوں اور پوزیشنزکو تبدیل کرلیں ، بس اتنا کریں کہ ان مجبوروں کو اس طرح کی ریاستی مفادات کی سیاست اور لڑائی میں نہ گھسیٹیں کہ جس کے وہ فریق نہ ہو کر بھی ہمیشہ ہندو تؤا کے جنونیوں کے نشانے پہ رہتے ہیں ۔۔۔ لیکن ان شیخ رشید جیسے بقراطوں سے کوئی کیونکر سنگ باری کی بات کرے جب صورتحال یہ ہو کہ۔۔کوئی پتھرسے نہ مارے اس دیوانے کو ۔۔۔ اس کار خیرکے لئے اس کا اک بیان کافی ہے۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔