خصوصی رپورٹ۔۔
ہم نے وزیرِ اعظم صاحب کو بتایا کہ مدثر نارو کون ہے۔۔۔ انھیں میرے بیٹے کی جبری گمشدگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا تھا۔ ان کو تو عدالت نے کہا تو انھوں نے ہمیں بلایا۔ یہ بچہ اگلے سال فروری میں چار سال کا ہوجائے گا اور ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ اس کے والد کہاں ہیں۔یہ کہنا ہے لاپتہ صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی والدہ راحت کا جنھوں نے جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرنے کے بعد بی بی سی سے بات کی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ 9 دسمبر کو ان کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے بلاوا آیا اور کہا گیا کہ آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ ‘ان سے ملتے ہی پوچھا کہ میرے بیٹے کو کون لوگ لے گئے ہیں اور کیوں؟ انھیں (وزیرِ اعظم کو) نہیں پتا تھا کہ کس ایجنسی کے پاس ہیں۔ تو انھوں نے اب آرڈر جاری کیے ہیں کہ باقاعدہ تحقیقات کر کے ہمیں اطلاع دیں کہ مدثر نارو کہاں ہے۔انھوں نے کہا کہ اس ‘برے وقت میں وکلا اور شیریں مزاری نے بہت مدد کی ہے۔ لیکن اب ہماری التجا ہے کہ ہمارے بیٹے کو چھوڑ دیا جائے۔اس ملاقات میں لاپتہ صحافی اور بلاگر کے والدین اور کمسن بیٹا بھی شامل تھا۔وزیرِ اعظم ہاؤس (پی ایم او) سے جاری ہونے والے مراسلے کے مطابق ملاقات میں وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور سیکریٹری داخلہ یوسف ندیم کھوکھر بھی شریک ہوئے۔
واضح رہے کہ مدثر نارو کو مبینہ طور پر اُس وقت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جب وہ 20 اگست سنہ 2018 کو اپنے اہلخانہ کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات ناران اور کاغان گئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور چھ ماہ کا بچہ بھی تھا۔پی ایم او کے بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نے مدثر نارو کے والدین کو واقعے سے متعلق تحقیقات اور تمام تر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے اور کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مدثر کے والدین کو ‘تسلی بخش جواب’ دیں۔ادھر مدثر نارو کے وکلا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عمران خان نے تسلیم کیا کہ انھیں مدثر نارو کیس کے بارے میں علم نہیں تھا مگر انھوں نے اس واقعے پر افسوس ظاہر کیا اور خاندان کو بتایا کہ پی ایم او انھیں آئندہ دو سے تین روز میں تفصیلات سے آگاہ کرے گا۔واضح رہے کہ اس ملاقات سے پہلے 4 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ مدثر نارو کو 13 دسمبر کو عدالت میں پیش کریں۔ نودسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز جہاں ایک طرف یہ مدثر نارو کے والدین اور کم عمر بیٹے سے وزیرِ اعظم عمران خان نے ملاقات کی، وہیں دوسری جانب اسلام آباد کے ڈی چوک پر بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے رشتے داروں نے احتجاج کیا۔
رواں ماہ کے اوائل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ لاپتہ صحافی مدثر نارو کو 13 دسمبر کو عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا تھا کہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اس مقدمے کی اگلی سماعت سے پہلے مدثر نارو کے والدین، اہلیہ اور بچے کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کو یقینی بنائیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالتی حکم نامے میں واضح کیا تھا کہ یہ ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے کہ وہ مطمئن کریں کہ ریاست یا ایجنسیاں لاپتہ شخص کو اغوا کرنے میں ملوث نہیں اور اگر جبری طور پر لاپتہ ہونے والے شخص کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی جاتیں تو وفاقی حکومت ذمہ دار اداروں کا پتا لگا کر ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائے اور اس بارے میں عدالت کو آگاہ کریں۔اس موقع پر مدثر نارو کے بھائی کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی کارروائی سے مطمئن ہیں اور اب انھیں یقین ہو چلا ہے کہ ان کے بھائی کے بارے میں جلد ہی کوئی اچھی خبر سننے کو ملے گی۔اس حکم میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم اپنے زیر کنٹرول ایجنسیوں کو مدثر نارو کو عدالت میں پیش کرنے یا ان کے ٹھکانے کا پتا لگانے کی ہدایت کریں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مدثر نارو کی عدم بازیابی کی صورت میں اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو کر اس بارے میں وفاقی حکومت کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے حکمنامے میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن نے مدثر نارو کے مقدمے کے حوالے سے جو جے آئی ٹی بنائی تھی، انھوں نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘لاپتہ ہونے والا شخص اپنی مرضی سے گیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ کوئی بھی جیورس پروڈنیس کا شعور رکھنے والا شخص جے آئی ٹی کی طرف سے اخذ کیے گئے نتیجے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور خاص طور پر ایسے حالات میں جس میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والا شخص خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہا ہو۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ یہ کتنا تکلیف دہ امر ہے کہ مدثر نارو کا تین سالہ بیٹا اپنی دادی کے ہمراہ عدالتی کارروائی کے لیے عدالت میں موجود ہوتا ہے جبکہ لاپتہ شخص کی بیوی پہلے ہی وفات پاچکی ہے۔
عدالتی سماعت کے دوران وزیر برائے انسانی حقوق شیریں نے عدالت سے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے اور جمہوریت میں کسی کو لاپتہ کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم متاثرہ خاندان کو ضرور سنیں گے تاہم وہ پہلے خاندان کے اخراجات کی ادائیگی پر کام کرنا چاہتی ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ لاپتہ شخص کے بیٹے اور دادی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے گی تاہم ان کی جانب سے اب تک بیان حلفی نہیں ملا، اس لیے معاوضے اور اخراجات کی ادائیگی نہیں ہو پائی۔خیال رہے کہ رواں سال مئی میں، جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں مدثر نارو کی بازیابی کے حوالے سے سماعت کا سلسلہ جاری تھا، مدثر نارو کی اہلیہ صدف کی بھی وفات ہو گئی تھی۔
مدثر نارو 1984 میں فیصل آباد کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنی پڑھائی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے خود کام کرتے تھے۔ اپنی طالب علمی کی زندگی میں ہی انھوں نے پنجابی کے مقامی شاعر انجم سلیمی سے متاثر ہو کر شاعری شروع کی۔ 2004 میں وہ لاہور آئے اور معروف شاعر خالد احمد کی شاگردی اختیار کی۔ اس دوران انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے لیے سکرپٹ رائٹنگ بھی کی۔ دوہزار آٹھ میں انھوں نے میڈیا سٹڈیز میں ماسٹرز کیا، پھر لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے فلم میکنگ کا کورس کیا اور وہاں استاد بن گئے۔ لیکن انھوں نے یہ نوکری چھوڑ کر دستاویزی فلمیں بنانا شروع کر دیں۔پہلی دستاویزی فلم بانی پاکستان محمد علی جناح پر بنائی گئی جو ایک نجی چینل پر نشر ہوئی۔ دو تین چینلز میں کام کرنے کے بعد انھوں نے اپنا سٹوڈیو بنایا۔ انھوں نے سعادت حسن منٹو اور فیصل آباد کے پاور لومز کے مزدوروں کے مسائل پر دستاویزی فلمیں بھی بنائیں۔ مدثر محنت کش طبقے کے درد کو اپنا درد سمجھتے تھے۔مدثر کا غیر جمہوری قوتوں کے خلاف بہت سخت رویہ تھا۔ وہ اپنے فیس بک پیج پر ان پر تنقید کیا کرتے تھے۔ بیس اگست دوہزار اٹھارہ کو مدثر نارو اپنی فیملی کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے ناران اور کاغان گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی اور چھ ماہ کا بچہ بھی تھا۔
مدثر نارو کی گمشدگی سے متعلق رواں سال عدالت میں دائر درخواست کے مطابق 2018 کے انتخابات کے چند دن بعد انھیں مبینہ طور پر فون پر دھمکی دی گئی کہ وہ سوشل میڈیا پر انتخابی دھاندلی کے بارے میں لکھنا بند کردیں۔مدثر نارو کے بھائی مجاہد محمود کے مطابق لاپتہ ہونے سے قبل ہی مدثر نارو کو دھمکی آمیز کالز موصول ہوئی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ وہ انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے باز رہیں ورنہ انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے بتایا کہ واقعے کے روز ان کا بھائی اپنی بیوی کے ساتھ یہ کہہ کر باہر گیا تھا کہ وہ سیر کے لیے جا رہے ہیں مگر وہ واپس نہیں آئے۔مدثر نارو کافی دیر تک واپس نہ آئے تو ان کی بیوی صدف نے انھیں ڈھونڈنا شروع کردیا۔ایک راہگیر نے بتایا کہ انھیں دوپہر 2 بجے ٹریک پر چلتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ مدثر کا سراغ نہ ملنے پر صدف مقامی تھانے چلی گئیں۔مبینہ طور پر صدف کو ایف آئی آر درج کروانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد انھوں نے لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن کے چکر لگانا شروع کر دیے اور کئی ماہ بعد مدثر کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج ہوئی۔مدثر کے والد نے صاف کہا کہ ان کے بیٹے کو ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے لاپتہ کیا گیا ہے۔صدف اپنے شوہر کو ڈھونڈنے کے لیے اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن رواں سال 8 مئی کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کی وفات ہوگئی۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔