تحریر: اسد محمود
پاکستان کے حالیہ معاشی بحران نے جہاں تمام شعبوں کے گرد اپنا گھیرا تنگ کیا ہوا ہے وہاں سب سے زیادہ متاثر نظر آنا والا شعبہ میڈیا ہے حکومتی وزراءکے یہ بیان کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں جو طلباءمیڈیا اسٹڈیز کے سبجیکٹ پڑھ رہے ہیں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مندرہیں کیونکہ پاکستان میں میڈیا کا مستقبل کوئی اچھا نظر نہیں آرہا۔ ان بیانات نے جہاں پہلے سے بے روزگار میڈیا ورکرز کو مایوس کیا وہاں اس شعبے سے منسلک طلباءمیں بھی تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے ایک طرف یونیورسٹیاں طلباءسے بھاری بھرکم فیسوں کے عوض انہیں صحافت کے شعبے میں روشن مستقبل کے خواب دکھا رہی ہیں تو دوسری طرف انتہائی اہم حکومتی وزیر کے بیان نے انہیں بیچ چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے انہوں نے جو ڈائریکشن شعبہ صحافت کی سیٹ کر کے اپنا سفر شروع کیا تھا وہ اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ وہ اب کیسے واپس جائیں ۔ گزشتہ روز نجی یونیورسٹی میں صحافت کے موضع پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں مجھے بھی “صحافت میں خواتین کے کردار”سمیت دیگر مسائل کے اوپر گفتگو کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کے بحران کے باجود اس پروگرام میں شریک ہونے والے طلباءکا جذبہ انتہائی دیدنی تھی جب میں نے اپنی گفتگو ختم کی تو طلباءکی طرف سے پے در پے کیے جانے والے سوالات بھی کافی سنجیدہ تھے جن کے جواب تو میں دے آیا مگر ان کے سوالات سے جنم لینے والے کچھ نئے سوالات میں اپنے ساتھ لے آیا۔یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ان طلباءکو جب حکومتی سطح پر اس طرح کی پذیرائی ملے کہ وہ اپنے مستقبل کی فکر کریں تو وہ اپنی آگے کی تعلیم کیسے جاری رکھ سکیں گے یا والدین سے بضد ہو کر جب انہوں نے اس فیلڈ کا انتخاب کیا تو وہ اب اپنے گھر والوں کو کس طرح مطمئن کریں ۔؟ میڈیا میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کو جب زبردستی بے دخل کر دیا جاتا ہے اور وہ آئے روز سڑکوں پر احتجاج کریں گے تو یہ فکر صرف ان کی نہیں بلکہ یونیورسٹیوںمیں زیرِ تعلیم ہزاروں طلباءکو بھی ہوگی جو ہر آنے والے دن کے ساتھ خود کو اس شعبے کے قریب سے قریب تر لاتے جار ہے ہیں ان کے ذہنوں میں بھی یہ سوال اٹھتا ہے اور وہ ہر دن اپنے کیمپس میں آتے جاتے اس سوچ میں گم سم نظر آتے ہیں ۔اگر میڈیا مالکان اور بڑے اینکرز کی حکومت کے ساتھ جاری لفظی جنگ کی بدولت حکومت میڈیا کو ہاتھ نہیں پکڑا رہی یا سادگی اپناؤ پالیسی کے تحت حکومت نے میڈیا سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ہے تو اس جنگ میں برطرف ہونے والے ان ہزاروں کارکنوں کا کیا قصور جنہوں نے گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر تک کا راستہ دیکھا تھا یعنی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر ان کی منزل تھی ۔ کیا کسی کو خیال آیا کہ جب ان کے بچوں کو اسکولوں کی فیس لیٹ ہونے پر اسکول سے نکال دیا گیا تو وہ میڈیا ورکرز کس کُرب سے گزر رہے ہوں گے۔ بڑے اداروں نے اپنے 15, 15سال سے کام کرنے والے ورکرز کو نکال کر اپنے دفاتر کو تالے لگا دیے ہیںیہ ورکرزجب احتجاجاََ حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں حکومتی سطح پر بھی کسی قسم کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی جاتی دوسری طرف ہزاروںکی تعداد میں یونیورسٹیاں نئے صحافی تیار کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب تجربہ کار لوگوں کے لیے حکومت کے پاس ان کو بہتر روزگار فراہم کرنے کے لیے کوئی پالیسی یا پلیٹ فارم نہیں تو مہنگی یونیورسٹیوں میںلاکھوں روپے کے عوض جرنلزم کی تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل طلباءکس کی طرف دیکھیں ۔۔ نئے پاکستان میں سادگی کے دعوے صرف میڈیا تک ہی کیوں محدود ہیں اگر میڈیا ورکرز کے حقوق اور ان کے روزگار کو محفوظ بنانے کی بجائے صرف یہ کہا جائے کہ پرائیویٹ ادارے اپنے بحران کے خود ذمہ دار ہیں تو میرے خیال سے یہ کسی مہذب معاشرے کی پہچان نہیں ۔سادگی اپناﺅ پالیسی میں اگر ہزاروںافراد کے گھروں میں چولہے بند ہوئے ہیں تو ریاست ِ مدینہ کے تصور کو سامنے رکھ کر اپنی رعایہ کو بہتر روزگار فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جس میں حکومت بالکل سنجیدہ نظر نہیں آتی اور اس شعبے سے منسلک ہزاروں افراد ، ان کے خاندان سمیت معصوم بچوں کے مستقبل داؤ پر لگے ہیں۔۔(اسد محمود)۔