sahafi or pansion

لاہور سےشہر بدر

تحریر: حامد میر۔۔

یہ عید بہت اداس گزری، رمضان کا آخری دن جمعہ کو آیا ،جمعہ کی نماز عام طور پر پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد میں ادا کرتا ہوں۔اس رمضان کے آخری جمعہ کو دو شخصیات کا خیال بار بار آ رہا تھا ۔ایک مفتی عبدالشکور صاحب تھے جنہوں نے اس رمضان میں ایک جمعہ کی نماز پڑھائی اور رو رو کر پاکستان کی سلامتی کیلئے دعائیں کیں۔ یہ درویش وزیر رمضان کی ایک شام افطاری کے بعد ٹریفک حادثے کا شکار ہو گیا۔دوسرے سابق سنیٹر انور بیگ تھے، سال ہا سال سے بیگ صاحب بھی پارلیمنٹ میں نماز جمعہ ادا کرتے اور اکثر اوقات نماز کے بعد بیگ صاحب کے ساتھ پارلیمنٹ کیفے ٹیریا یا اسلام آباد کلب میں نشست ہوتی جس میں رضا ربانی، حاصل بزنجو اور دیگر دوست شامل ہوتے ۔اس جمعۃ الوداع پر خیال آرہا تھا کہ انور بیگ تو بیماری کے باعث نماز ادا کرنے پارلیمنٹ ہائوس نہیں آئیں گے تو کہیں اور نماز ادا کر لیتا ہوں اس دوران انور بیگ صاحب کے انتقال کی خبر آ گئی۔ یقین نہیں آیا تو کچھ مشترکہ دوستوں سے تصدیق کی اور رمضان کی آخری افطاری کے بعد چاند رات کو ہم بہت سے دوست انور بیگ کے برخوردار سمیر بیگ کے گھر سوگوار بیٹھے تھے ۔بیگ صاحب کو کچھ عرصہ قبل کینسر کا مرض لاحق ہوا تھا انہوں نے کافی عرصہ علاج کرایا اور بظاہر ٹھیک ہو گئے لیکن ارشد شریف کی شہادت کے بعد ڈائون ہوگئے ۔ارشد شریف سے انکی بہت دوستی تھی اور جس دن ارشد شریف پر کینیا میں حملہ کیا گیا اس دن بھی حملے سے کچھ دیر قبل ارشد نے انور بیگ کو فون کیا اور ان سے باتیں کیں۔انور بیگ نے آخری ملاقات میں بھی ارشد شریف کا بار بار ذکر کیا اور مجھے اپنے موبائل فون میں محفوظ ارشد کے کچھ پیغامات دکھائے۔بیگ صاحب کے لہجے میں چھپے درد اور آنکھوں میں جھلملاتے آنسو مجھے یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ شدید مایوسی کا شکار ہیں ۔میں نے ان کا بہت حوصلہ بڑھایا لیکن اس کے بعد وہ جب بھی ملے تو پہلے سے زیادہ مایوس نظر آئے ۔وہ اپنی بیماری کاتو ذکر ہی نہیں کرتے تھے ان کی غصے اور جھنجلاہٹ سے بھرپور گفتگو پاکستان کی معیشت اور ارشد شریف کے مقدمہ قتل کے گرد گھومتی رہتی۔چاند رات کو انور بیگ کے تمام سوگوار دوست ایک دوسرے سے پوچھ رہےتھے کہ ہم سب کو انور بیگ اکٹھا کیا کرتے اور مسکراہٹیں بکھیرتے تھے اب ہمیں کون اکٹھا کرے گا؟انور بیگ ایک سیلف میڈانسان تھے وہ کراچی کا المیہ اور اسلام آباد کی رونق تھے ان کی زندگی کا اختتام بھی المیے اور رونق کا امتزاج تھا ۔

عجیب عید تھی نماز عید کے بعد انور بیگ کی نماز جنازہ ادا کرنی تھی ۔ظہر کے وقت میں اسلام آباد کے ایچ الیون فور قبرستان میں پہنچا تو ہلکی بارش کے باوجود قبرستان میں بہت رش تھا لوگ عید کے دن اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول بکھیرنے اور فاتحہ خوانی کیلئے آ رہے تھے ۔انور بیگ کے جنا زے میں شاہد خاقان عباسی، سابق چیئرمین سینٹ نیر بخاری، فرحت اللہ بابر، زمرد خان، اسماعیل بلیدی، وسیم حقی، امتیاز گل، ڈاکٹر شاہد مسعود، فیصل سخی بٹ، عدنان خواجہ اور کوثر عبداللہ ملک سمیت مرحوم کے دوستوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔کوثر عبداللہ ملک کو دیکھ کر مجھے ان کے والد عبداللہ ملک یاد آ گئے ۔جس زمانے میں انور بیگ کراچی کے حالات سے تنگ آکر اسلام آباد آ گئے تو اسی زمانے میں مجھے لاہور سے شہر بدر کیاگیا تھا۔ایک کالم کی وجہ سے صوبے کے وزیر اعلیٰ ناراض ہوئے اور مجھے اخبار کے ایڈیٹر نے اسلام آباد میں چھپا دیا ۔پھر میں نے روزنامہ اوصاف کا اجرا کیا تو عبداللہ ملک اس اخبار میں کالم لکھنے لگے وہ جب بھی اسلام آباد آتے تو انور بیگ کے ہاں کسی نہ کسی محفل کے مہمان بنتے اور یوں عبداللہ ملک صاحب کے توسط سے ہماری بھی انور بیگ سے دوستی ہو گئی ۔

عبداللہ ملک کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’حدیث دل ‘‘ میں اس خاکسار کے علاوہ انور بیگ کا بھی ذکر ہے ۔بیگ صاحب بتایا کرتے تھے کہ عبداللہ ملک ان کے سسرالی رشتہ دار ہیں ۔2003ء میں عبداللہ ملک صاحب دنیا سے چلے گئے اور اس سال انور بیگ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرسینیٹربنے ۔چھ سال تک پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں انور بیگ نے بہت اہم کردار ادا کیا ۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں میچ فکسنگ کا معاملہ انہوں نے سینیٹ میں اٹھایا اور اس کی انکوائری کرائی ۔عید کے دن جب انور بیگ کو قبر میں اتارا جا رہاتھا تو وسیم حقی نے قریب ہی ایک قبر کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ ان کے بھائی کی قبر ہے اور کچھ سال پہلے انور بیگ نے اپنے ہاتھوں سے انکے بھائی کو قبر میں اتارا تھا۔کچھ فاصلے پر ارشد شریف کی قبر تھی دل کو اطمینان ہوا کہ موت کے بعد بھی انوربیگ اپنےپیارے دوست کے کافی قریب رہیں گے ۔انور بیگ کے کچھ دوست عید کے دن ان کے جنازے میں شرکت کیلئے کراچی سے آئے تھے انور بیگ کا بچپن اور جوانی کراچی میں گزرے۔1964ء میں وہ بہت کم عمری میں کراچی سے بی ڈی ممبر بن گئے تھے ۔1965ء کے صدارتی الیکشن میں جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کا مقابلہ تھا اور بی ڈی ممبرز نے ووٹ ڈالنے تھے ۔کنونشن مسلم لیگ کراچی کے صدر کموڈور ریٹائرڈ خالد جمیل نے انور بیگ کا ووٹ خریدنے کی کوشش کی ۔انور بیگ نے انکار کر دیا تو انہیں کم عمری کی وجہ سے نااہل کر دیا گیا۔پھر اسی شہر میں ایسا وقت آیا کہ لسانی نفرت کا طوفان انور بیگ کے گھر پہنچ گیا، ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور وہ کراچی چھوڑکر اسلام آباد آ گئے ۔

انو ربیگ کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے کافی قربت تھی شہید بی بی اسلام آباد میں انور بیگ کے گھر کئی خاموش ملاقاتیں کیا کرتی تھیں۔ایک ملاقات جنرل ریٹائرڈ فیض علی چشتی کی خواہش پر بھی ہوئی جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ ان پر ذوالفقار علی بھٹو کو دورانِ قید تشدد کا نشانہ بنانے کا غلط الزام لگایا جاتا ہے ۔شہید بی بی نے چشتی صاحب کا موقف خاموشی سے سنا اور ملاقات ختم ہو گئی ۔2008ء میں انور بیگ اپنے دوست مخدوم امین فہیم کو وزیر اعظم بنوانے کیلئے سرگرم تھے میں نے انہیں بار بار بتایا کہ مخدوم صاحب وزیر اعظم نہیں بنیں گے کیونکہ وزیر اعظم پنجاب سے اور صدر سندھ سے ہو گا۔بیگ صاحب میرا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ بھلا مشرف کو کون ہٹا سکتا ہے ؟پھر وہی ہوا بیگ صاحب اپنے دوست کے ساتھ کھڑے رہے ۔دوست کی بجائے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر بن گئے ۔انور بیگ پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں چلے گئے لیکن وہاں اسحاق ڈار کے ساتھ نہ چل سکے ۔دونوں جماعتوں کو اس وقت چھوڑا جب یہ جماعتیں اقتدار میں تھیں ۔وہ دوستوں کی رونق تھے لیکن پاکستانی سیاست کی رونق نہ بن سکے کیونکہ اس سیاست کے سینے میں دل نہیں ہے ۔عید کے دن آصف علی زرداری کو ان کے انتقال کی خبر ملی تو سب کچھ بھول کر انہوں نے کہا کہ اللہ کو اسکی کوئی نیکی پسند آگئی اس لئےوہ رمضان کے آخری جمعہ کو چلا گیا۔(بشکریہ جنگ)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں