تحریر: ذوالفقار علی مہتو
(سابق سیکرٹری لاہور پریس کلب)۔۔
لاہور پریس کلب میں پروگریسو گروپ کی موجودہ گورننگ باڈی کے صدر اعظم چودھری اور سیکرٹری عبدالمجید ساجد نے پرانی روایت کے مطابق کلب ممبران کے ان بچوں کو 10 ہزار روپے فی کس 3 اگست کو کیش ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے ، جنہوں نے میٹرک کے حالیہ امتحان میں ایک ہزار سے زائد نمبر حاصل کئے ۔ یہ بڑا اچھا اقدام ہے لیکن افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ میری بیٹی نمبروں والی اس شرط کو پورا نہیں کرتی۔ میں کیوں چاہتا تھا کہ میری بیٹی 10 ہزار روپے کا یہ انعام حاصل کرتی یہ بڑا حساس معاملہ ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ پریس کلب ان دنوں شدید مالی بحران کا شکار ہے۔کیفے ٹیریا میں کھانوں کے نرخ دگنا کرنے کے باوجود حالت مزید نا گفتہ بہ ہوچکی ۔چائے کے لئے دودھ سپلائی کرنے والے نے لاکھوں روپے کے ڈیفالٹ کے بعد مزید ادھار دینے سے انکار کردیا ہے جس کے بعدکبھی 2 لٹر اور کبھی پانچ لٹر دودھ ،کیش کی دستیابی کے مطابق منگوا کر چائے کی سروس شروع کی جاتی ہے اور چائے کی کراکری نہ ہونے کے باعث کپ کی بجائے پانی پینے کے گلاس میں چائے سرو کی جاتی ہے۔رائتہ ، اور اب سویٹ ڈش بھی خال خال پکائی جاتی ہے کہ اخراجات کے لئے پیسے نہیں ۔ پچھلے ماہ بجلی کا 2 ماہ کا بل کنکشن کٹنے کے قریب جمع کرایا گیا اور اس کے لئے بے نظیر بھٹو شہید کی طرف سے 1993ء میں دیئے گئے 35 لاکھ روپے کا فکسڈ ڈیپازٹ اکائونٹ خالی کردیا گیا جس کو 24 سال کسی گورننگ باڈی نے ٹچ کرنے کی جرات نہیں کی۔بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ کلب کے ملازمین کو گزشتہ 3 ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی اور روایت کے مطابق ایک اضافی تنخواہ عید الفطر پر بھی دی جاتی ہے جبکہ کلب انتظامیہ اس اہم ذمے داری میں بھی ڈیفالٹ ہوچکی ہے۔کلب کے واش رومز میں ڈیڑھ دو سو روپے سے مسلم شاور کی مرمت تک ممکن نہیں رہی۔۔اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ صحافی کالونی کے ایف بلاک کی زمین لاکھوں روپے کے عوض ٹھیکے کے فراڈ کا اسکینڈل بھی منظر عام پر آگیا جس میں پروگریسو گروپ کے اہم لیڈر حبیب چوہان کو ملوث قرار دے کر اس کی ممبر شپ معطل کر دی گئی ۔
ایسے دگرگوں حالات کا سب سے بڑا شکار چار تنخواہوں سے محروم کلب کے غریب ملازمین بنے ہیں۔کلب کے ایک گارڈ نے چار روز قبل مجھے بتایا کہ اس کے بچے کو ٹیوشن سنٹر والوں نے کلاس میں بیٹھنے سے روک دیا ہے، یہ بات بتاتے ہوئے اچھے خاصے ڈیل ڈول کے مالک گارڈ کا جسم ڈول رہا تھا اور نم آنکھوں کے ساتھ ہونٹ لرز رہے تھے۔یہہی حالات ہر ملازم کو درپیش ہیں اس لئے میں چاہتا تھا کہ اگر میری بیٹی نے 1000 سے زائد نمبر حاصل کئے ہوتے تو اس کو انعام میں ملنے والے 10 ہزار روپے میں کلب کے مذکورہ گارڈ کے بیٹے کی فیس اور دیگر اخراجات کے لئے دے دیتا۔ ایک” بزدلانہ “تجویز بھی دینا چاہتا ہوں ( بزدلانہ اس لئے کہ اپنے بچوں کو سامنے رکھ کر یہ بات کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے) کہ کلب انتظامیہ کو ہمارے بچوں کو کیش ایوارڈ دینے کی تقریب میں گارڈ کے بچے کو بھی مدعو کرنا چاہیے اور اس کے گلے میں تمغہ جرات کا میڈل ڈال کر تالیاں پیٹنا چاہئیں تاکہ اس کے 4 تنخواہوں سے محروم باپ کے خاموش احتجاج کی چیخیں تالیوں کی اس گونج میں دفن ہوجائیں اور پریس کلب اور پروگریسو گروپ کی گورننگ باڈی کی “خام خوشحالی ” کا بھرم رہ جائے۔دوسری بات یہ کہ لاہور پریس کلب کی تاریخ میں کلب پہلی بار 70 لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوچکا ۔ہم بطور اپوزیشن ،جرنلسٹ گروپ کے تمام ساتھی اس بحران پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ گورننگ باڈی اس خواہش کا آفیشل طور پر اظہار کرے۔۔(ذوالفقار علی مہتو)۔۔
(ذوالفقار مہتوصاحب کا شمار لاہور کے صحافتی لیڈران میں ہوتا ہے، لاہور پریس کلب کے حوالے سے ان کی اس تحریر کے حوالے سے اگر کلب کی گورننگ باڈی کا کوئی عہدیدار اپنا موقف دینا چاہے تو ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے، اس تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ہم منتظر رہیں گے کہ لاہور پریس کلب کے حوالے سے جو کچھ کہاگیا ہے اس کا دفاع کرنے کیلئے کوئی سامنے آئے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔