press club mein aaj children maila lagega

لاہور پریس کلب، رکنیت سے سیاست تک پارٹ فور۔۔

تحریر: امجد عثمانی۔۔

لاہور پریس کلب کا میرا دو ہزار تیرہ  چودہ کا اہگزیکٹو باڈی کا علامتی سا الیکشن بڑا ہی محبت آمیز تھا۔۔۔۔۔مکرر عرض ہے دوستوں نے پلکیں ہی بچھادیں۔۔انتخابی مہم کے دوران تلخ و شیریں  تجربات بھی ہوئے۔۔کئی روپ بہروپ بھی سامنے آئے۔۔خیر یہ چیزیں الیکشن کا جزو لاینفک ہوتی ہیں۔۔انہیں مائنڈ نہیں انجوائے کرنا چاہیے۔۔ہوا یوں کہ لاہور کے نیک نام اخبار نویس جناب طاہر پرویز بٹ صاحب میری الیکشن مہم کے ہنگام ایک دن علیم عثمان کو پریس کلب میں ملے اور کہا کہ یار علیم ایک ووٹ امجد عثمانی کو دے دیجیے گا…….علیم عثمان، جو بٹ صاحب کا دل سے احترام کرتے تھے، بولے سر آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر وہ تو بہت عجیب بندہ ہے ……نوشین نقوی اور راجہ ریاض کے سوا کسی سے سلام بھی نہیں لیتا….پھر بھی آپ کہتے ہیں تو ووٹ حاضر ہے…..بٹ صاحب نے مجھے علیم عثمان کا فیڈ بیک دیا تو میں نے قہقہہ لگایا اور کہا سر قسم لے لیں باقی لوگوں کا تو پتہ نہیں مگر کلب کے استقبالیہ پر بیٹھے علیم عثمان کو تو میں روزانہ سلام کرتا ہوں…..وہ مسکرائے اور بولے وہ ایسا ہی شرارتی مگر بہت اچھا آدمی ہے…..ہمیں ووٹ دے دے گا……میں نے اس دن علیم عثمان کو خاص طور پر ڈھونڈا اور کہا علیم صاحب خدا کا خوف کریں…….میں نے جناب کو ایک نہیں ہمیشہ ست سلام کیے…..انہوں نے پھر قہقہہ لگایا اور کہا پتہ چلا الیکشن کیا ہوتا ہے……؟؟؟پھر کہنے لگے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بٹ صاحب حکم دیں اور میں حکم عدولی کروں…..!!!!اس دن سے مرتے دم تک ہم ایک دوسرے کو خصوصی طور پر سلام کرتے رہے کہ ہم دونوں بٹ صاحب سے “صحافتی بیعت” کے باعث” پیر بھائی” بھی تھے …..اسی الیکشن کا ایک اور “جھانسہ” بھی ملاحظہ فرمائیے۔۔۔۔۔میں۔۔۔ نوشین نقوی۔۔۔۔طارق حمید اور فرزانہ چودھری کلب کے لان میں بیٹھے تھے۔۔۔۔ہم سب کے ملنے والے “ایک صاحب” تشریف لائے۔۔۔۔۔کہنے لگے کہ میں تو صرف تین لوگوں کو ووٹ کاسٹ کروں گا۔۔۔۔اور وہ لوگ ہیں امجد عثمانی۔۔۔۔۔طارق حمید اور فرزانہ کو۔۔۔۔۔الیکشن کے نتائج کے اگلے دن مجھے نوشین نقوی کا فون آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ان صاحب پر آگ بگولہ ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں کہ “ان صاحب”نے مجھے گارنٹی دی تھی کہ امجد عثمانی نہیں جیتیں گے کہ انہوں نے کیرئیر میں دوست کم دشمن زیادہ بنائے ہیں۔۔۔۔۔میں نے قہقہہ لگایا اور کہا آپ تو جانتی ہیں ہم ان جیسے کتنے ہی لوگوں کو دوست سمجھ کرآخری حد تک سپیس دیتے ہیں۔۔۔غصہ نہ کیجیے کہ وہ اپنے ایسے “دوست نما دشمنوں” کی بات کر رہے ہونگے۔۔۔اور ویسے بھی سیاست میں جذباتی نہیں ہوا کرتے۔۔۔۔انہوں نے مجھے بھی “جلی کٹی” سنا کر فون بند کر دیا۔۔۔(امجد عثمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں