تحریر: امجد عثمانی۔۔
سوال یہ ہے کہ پھر لاہور پریس کلب کے “ہارے ہوئے لشکر” کا کیا ہوا؟جواب ہے کہ پھر گردش ایام سے نڈھال مفتوح گروپ فاتح ٹھہرا کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم لوگوں کے درمیان دنوں کو بدلتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔پھر وہی ہوا جو اچھے دنوں میں ہوتا ہے کہ برے وقت کے اچھے دوست دور ہو جاتے ہیں۔۔ ادھر بھی یہی ہوا اور زہر آلود فضا میں دوستوں کا “گل دستہ” خزاں کے زرد پتوں کی طرح بکھر گیا۔۔۔کبھی خلوص بھی رسوا ہوا ہے۔۔۔ کبھی منافقت بھی سرخرو ہوئی ہے؟؟ہرگز نہیں۔۔ یہ اپنے اپنے بخت کی بات ہے۔۔۔۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں” استوار” کر کے آپ خوش بختی سمیٹ رہے ہوتے ہو۔۔۔۔ وہ عین اسی وقت تمہیں “مسمار” کرنے کی کوشش کرکے بد بختی کا طوق گلے ڈال رہے ہوتے ہیں۔۔اقتدار کانشہ برا نشہ ہے۔۔۔اچھے بھلےاعتدال پسند لوگ توازن کھو دیتے۔۔۔ زاہد،عابد بہک جاتے ہیں۔۔عالم گیر سچائی ہے کہ کرسی کبھی کسی کی نہیں ہوئی لیکن پھر بھی لوگ کرسی کے لیے مرے جاتے ہیں۔۔۔۔کسی ایک سے پہلے کسی دوسرے تخت نشیں کوبھی اپنے خدا ہونے پراتنا ہی یقیں ہوتا ہے۔۔۔لیکن کوئی بھی عبرت نہیں پکڑتا جب تک نشان عبرت نہ بن جائے۔۔۔کچھ سال ہوئے ہمارے ایک صوبائی سطح کے سیاست دان دوست کو طویل برے وقت کے بعد ابھی اچھے دنوں کا خمار نہیں چڑھا تھا تو لاہور پریس کلب کے صحن میں اپنی قمیص پکڑ کر کہنے لگے کہ یہ جو میں نے کپڑے پہن رکھے ہیں یہ بھی آپ کے ہیں۔۔۔جب خمار چڑھا تو ایک کیمرہ مین ٹائپ سرکاری صحافی کو کہنے لگے کہ میں “کسی” کو کیا سمجھتا ہوں ۔۔۔یہ وہی صاحب ہیں جنہیں میں نے ایک نشست میں پوچھا۔۔۔قبلہ یہ جو آدمی آپ سے مخاطب ہے اسے جانتے ہو؟کہنے لگے نہیں۔۔میں نے کہا کہ یہ وہی آدمی ہے جب فلاں گائوں میں آپ کو بیٹھنے کی جگہ دستیاب نہیں تھی تو اس نے آپ کا انتخابی جلسہ کرایا۔۔۔المیہ دیکھیے کہ کچھ عرصہ بعد یہ صاحب ایک منصوبہ لیکر اپنے اسی محسن کے مخالف کے گھر جا بیٹھے۔۔۔قدرت کے کام دیکھیے کہ پھر وہی منصوبہ ان کے لیے’ کالک” بن گیا۔۔۔بہر کیف لاہور پریس کلب میں بھی مبینہ “مبارک پراجیکٹ “تمام ہوا اور “باد صبا” کچھ اور ہی کہانی کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔
نوٹ:بلاگ میں متذکرہ الفاظ “زاہد عابد”کا لاہور کے سنئیر صحافی برادرم زاہد عابد سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔۔(امجد عثمانی)۔۔