تحریر: امجد عثمانی۔۔
لاہور پریس کلب میں عزیز دوست حافظ ظہیر اعوان کے مذکورہ الیکشن کے بعد بھی دوستوں کے کئی الیکشن اپنے انداز میں لڑے۔۔۔کبھی جیت گئے تو کبھی ہار گئے۔۔ دو ہزار تیرہ میں برادرم راجہ ریاض اور سیدہ نوشین نقوی کو ناجانے بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی کہ “ہارے ہوئے لشکر” میں کھڑے ہوکر “طبل سیاست” بجادیا۔۔ انہوں نے مجھے ڈیلی ٹائمز بلایا اور فیصلہ سنایا کہ معین اظہر گروپ کے ساتھ چلنا ہے۔۔۔۔فیصلہ چیلنج بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ تنویر عباس نقوی سے کسی بھی نسبت کا احترام کرتا ہوں۔۔حافظ ظہیر سمیت کتنے ہی دوست بھی سر تسلیم خم کرکے ساتھ چل دیے۔۔۔۔اس الیکشن میں جناب مائد علی سید صدر اور شعیب الدین سید سیکرٹری کے امیدوار تھے۔۔۔ مجھے پوچھا گیا کہ کس نشست پر الیکشن لڑنا ہے۔۔میں نے کہا کہ میری گروپ میں نئی نئی انٹری ہے۔۔۔۔میں اظہار یکجتی کے طور پر ساتھ ہوں جو حکم ہوگا سر آنکھوں پر۔۔۔۔مجھے جوائنٹ سیکرٹری کی نشست کے لیے چنا گیا۔۔۔اگلے دن پتہ چلا کہ محترمہ صائمہ نواز بھی گروپ جوائن کرنا چاہتی ہیں۔۔۔کہا گیا کہ وہ پہلے گورننگ باڈی جیت چکی ہیں۔۔۔انہیں جوائنٹ سیکرٹری پر لے آتے ہیں کہ مد مقابل بھی خاتون ہیں۔۔۔میں نے کہا کہ پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ علامتی سا الیکشن لڑنا چاہتا ہوں۔۔گورننگ باڈی پر لڑ لیتا ہوں۔۔۔تب ارشد انصاری گروپ کا سورج نصف النہار پر تھا۔۔۔خیر الیکشن ہوا اور برادرم آصف چودھری۔۔۔جناب بلال غوری اور میرے علاوہ پورا گروپ “جھلس”گیا۔۔۔اپنی بات کروں تو دوستوں نے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے۔۔۔اس الیکشن کے شروع میں بھی ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔۔۔میں نے تب “سٹی فارٹی ٹو میڈیا” سے نیا نیا استعفی دیا تھا۔۔ ہمارے گروپ چیئرمین کافی گھبرائے ہوئے تھے کہ آپ کسی ادارے میں نہیں تو الیکشن جتنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔کہنے لگے کہ ایسا کریں آپ اپنے پینل پمفلٹ میں نام کے ساتھ روزنامہ جناح لکھ لیں۔۔۔شاید وہاں تب میاں حبیب صاحب ایڈیٹر تھے۔۔۔میں نے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جس ادارے میں نہیں اس کا نام لکھا جائے۔۔۔پھر کہنے لگے کہ ارشد یاسین صاحب نے پیشکش کی ہے کہ نئی بات جوائن کرلیں۔۔الیکشن جیت گئے تو نوکری پکی ورنہ پھر ڈنگ تو ٹپ جائے گا۔۔ میں نے کہا کہ ارشد صاحب کی محبت کا شکریہ لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ الیکشن پراسیس کے لیے کوئی ادارہ جوائن کروں۔۔۔۔۔گبھرائے ہوئے چئیرمین صاحب اور کپکپا گئے۔۔۔ مجھے کھٹکا کہ وہ کوئی فرضی کارروائی ڈال دینگے۔۔ پینل چھپنے کو تھا کہ میں نے انہیں فون کیا کہ میرے نام کے سامنے کوئی ادارہ نہیں لکھنا۔۔۔وہ ضد پر اڑگئے تو میں نے بھی دو ٹوک کہہ دیا کہ اگر میرے نام ساتھ کوئی فرضی ادارہ لکھا تو میں الیکشن نہیں لڑوں گا۔۔ یہ دھمکی کام کر گئی اور وہ کسی مصنوعی حرکت سے باز آگئے۔۔ پھر پورے پینل میں صرف میرے نام کے سامنے ادارے کا خانہ خالی تھی لیکن اللہ کریم نے پھر بھی بیلٹ باکس بھر دیا اور خاکسارہارے ہوئے لشکر میں بھی فاتح ٹھہرا۔۔۔۔۔(امجد عثمانی)۔۔