تحریر: امجد عثمانی۔۔
لاہور پریس کلب کی سیاست میں ہمیشہ دوستوں کا ساتھ دیا چاہے جناب شبیر مغل نے تن تنہا سیکرٹری کی نشست پر طبل جنگ بجادیا ہو۔۔جس کو دوست کہہ دیا اس کا “ہاتھ اور ساتھ”نہیں چھوڑا چہ جائیکہ اس کے حالات بدل گئے اور اس نے خود راستہ بدل لیا۔۔اس کا اطلاق نارووال کے ایک صوبائی حلقے سے لاہور پریس کلب کی سیاست تک ہوتا ہے۔۔دوستی کی طرح لاہور پریس کلب کی سیاست میں بھی میں اور حافظ ظہیر یک جان دو قالب تھے۔۔حافظ ظہیر ۔مجھ سے پہلے ہی لاہور پریس کلب کے سنئیر کونسل ممبر اور صحافیوں کی سیاست میں بھی کافی متحرک تھے۔۔یہ دو ہزار آٹھ یا نو کی بات ہے۔۔ہم روزنامہ آج کل میں تھے تو نیوز روم کے دوستوں نے جناب تنویر عباس نقوی سے مشورہ کرکے حافظ صاحب کو میدان میں اتار دیا۔۔یہ جناب ارشد انصاری کے جرنلسٹس گروپ کے تب برے دن تھے۔۔یہ گردش ایام ہے اور ہر کوئی اس مرحلے سے گزرتا ہے ۔۔یار لوگوں نے گھیر گھار کر جناب اسرار وڑائچ کو صدر کا امیدوار ڈکلئیر کر دیا۔۔۔ہمارے مدمقابل جناب معین اظہر کا پروگریسو گروپ تھا اور جناب محسن گورائیہ صدارتی امیدوار۔۔ہمیں خازن کی نشست ملی۔۔نا جانے عباس اطہر صاحب نے کیا پھونک ماری کہ الیکشن مہم شروع ہونے سے پہلے ہی اسرار وڑائچ صاحب پر اسرار طور پر دستبردار اور گورایہ صاحب بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔۔پہلے سے نڈھال جرنلسٹس گروپ کی کمر ٹوٹ گئی۔۔امیدوار دل ہار بیٹھے ۔۔علامتی سا الیکشن رہ گیا لیکن نقوی صاحب کی قیادت میں ہم نے خزانچی کی نشست پر مزاحمت کا اعلان کر دیا۔۔حافظ صاحب کے مقابلے میں دھیمے مزاج کے برادرم زاہد عابد امیدوار تھے۔۔۔پھر اس نشست پر اتنا کانٹے کا مقابلہ ہوا کہ بلامقابلہ جیتے گروپ کو خزانچی کی سیٹ پر الیکشن لڑتے پسینے چھوٹ گئے۔۔انہوں نے اس دن اس ایک نشست پر ہی ووٹ مانگے۔۔نتیجہ آیا تو زاہد عابد صاحب ساٹھ ستر ووٹوں سے جیت گئے۔۔ہم ہارے لیکن مقابلہ کرکے۔۔یہ ہمارے لیے مہنگا ترین الیکشن تھا کہ انتخابی مہم کے دوران روزنامہ جنگ کے باہر سے حافظ صاحب کی گاڑی بھی چوری ہو گئی جو آج تک نہیں ملی۔۔کل لاہور پریس کلب میں بیٹھے مجھے برادرم اعجاز حیدر بٹ نے کہا آج آپ کے دوست حافظ ظہیر ہوتے تو آپ کا الیکشن خوب لڑتے۔۔میں نے کہا دوست!!!گور پیا کوئی ہور کے مصداق مخلص دوست کبھی نہیں مرتے۔۔۔۔۔وہ کسی نہ کسی روپ میں آپ کے دائیں بائیں ہی ہوتے ہیں۔۔۔(امجد عثمانی)۔۔